’گھر میں جب باقی بچوں کو بولتے اور سنتے ہوئے دیکھتی تھی تو پریشان ہو جاتی تھی۔ میں احساس کمتری میں مبتلا ہو جاتی تھی کہ میں کچھ نہیں کر سکتی لیکن اب سکواش کھیلنے کے بعد بہت خوش ہوں اور وہ احساس محرومی ختم ہوا ہے۔‘
یہ کہنا تھا پشاور سے تعلق رکھنے والی 15 سالہ ثنا بہادر کا جو پیدائش سے سننے اور بولنے کی صلاحیت نہیں رکھتیں لیکن اب سکواش کے میدان میں اپنا لوہا منوانے کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔
ثنا بہادر پشاور سپورٹس کمپلیکس میں سکواش کے مایہ ناز کھلاڑی قمر زمان کے نام سے منسوب کورٹ میں صبح سویرے پریکٹس کرنے آتی ہیں اور تقریباً چار گھنٹے پریکٹس کے بعد واپس گھر جاتی ہیں۔ جب ہم ان سے ملنے گئے تو وہ پریکٹس میں مصروف تھیں اور ان کے کوچ نعمت اللہ ان کو ٹپس دے رہے تھے۔
ثنا بہادر نے اشاروں کی زبان سے انڈپینڈنٹ اردو کو اپنی کہانی سنائی۔
احساس کمتری کے بارے میں ثنا کی سوچ اس وقت بدلی جب ان کے والد نے ان کو سپیشل بچوں کے سکول میں داخل کرایا اور انہون نے پڑھنا شروع کیا۔ وہ اب چوتھی کلاس میں پڑھتی ہیں۔
ثنا کے والد شیر بہادر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پشاور کے علاقے یکہ توت میں سپیشل بچوں کے سکول میں ثنا کو داخل کروایا لیکن وہاں سے وہ مطمئن نہیں تھے۔
انہوں نے بتایا: ’سکول میں مسئلہ یہ تھا کہ ان کی پڑھائی درست طریقے سے نہیں ہوتی تھی۔ کچھ عرصے پڑھائی کے بعد جب ان کو جج کیا تو مجھے لگا کہ اس سکول سے ان کو نکال دیا جائے اور کسی بہتر سکول میں انہیں داخل کرایا جائے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ثتا کو آرمی کے زیر انتظام پشاور میں قائم مخصوص سکول میں داخلہ دلوایا اور اب یہ کلاس ٹاپر ہیں اور پڑھائی میں دلچسپی بھی رکھتی ہیں۔
تاہم پڑھائی کے ساتھ ساتھ ثنا کو سکواش کھیلنے کا شوق تب پیدا ہوا جب والد ان کو ایک مرتبہ سکواش اکیڈمی لے کر گئے۔
شیر بہادر نے بتایا کہ سکواش اکیڈمی میں جب ثنا نے دوسرے بچوں کو سکواش کھیلتے دیکھا تو انہوں نے کہا کہ وہ بھی سکواش کھیلنا چاہتی ہیں۔
اس کے بعد ان کے والد نے انہیں اکیڈمی میں داخلہ دلوایا اور تب سے وہ سکواش اکیڈمی میں پریکٹس بھی کرتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ثنا نے بتایا کہ سکواش کھیلنے کے بعد ان کا احساس محرومی مزید کم ہوگیا ہے اور ارادہ ہے کہ وہ عالمی مقابلے میں حصہ لے کر بڑے ٹائٹل پاکستان کے نام کردیں۔
ثنا نے بتایا: ’میری خواہش ہے کہ ٹائٹل جیت کر آؤں اور پاکستان کے جھنڈے تلے لوگ میرا استقبال کریں اور مجھے میڈل اور ہار پہنائیں۔‘
ثنا سے جب پوچھا گیا کہ کیا سننے اور بولنے کی صلاحیت نہ ہونے کی وجہ سے سکواش کھیلنے میں کوئی دشواری تو پیش نہیں آتی، تو ان کا کہنا تھا: ’میں سن اور بول نہیں سکتی اور اس کی سکواش میں کوئی ضرورت بھی نہیں ہے کیونکہ میں دل اور دماغ سے کھیلتی ہوں اور آگے بھی کھیلوں گی۔‘
باقی سپیشل بچوں کے لیے کیا پیغام دینا چاہیں گی؟ اس کے جواب میں انہوں نے کہا: ’میں ان سارے سپیشل بچوں کو بتاتی ہوں کہ گھروں میں بیٹھ کر اپنے آپ کو ضائع نہ کریں بلکہ باہر نکل کر سپورٹس میں حصہ لیں کیونکہ سپورٹس کھیلنے سے آپ کے اندر موجود احساس کمتری ختم ہو جائے گی اور آپ بہت کچھ کر پائیں گے۔‘
ثنا کے والد شیر بہادر نے بتایا کہ ان کے پانچ بچے ہیں جن میں ثنا سمیت تین سپیشل بچے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ ثنا اور اپنے بیٹے کو روزانہ صبح سویرے سکواش اکیڈمی میں پریکٹس کے لیے لے کر آتے ہیں۔
تین چار گھنٹے پریکٹس کرنے کے بعد ثنا اپنے والد کے ساتھ واپس گھر جاتی ہیں۔
بہادر نے بتایا کہ ثنا میں ایک صلاحیت یہ ہے کہ یہ چیزوں کو بہت جلد سمجھ جاتی ہیں اور اسی صلاحیت کی وجہ سے انہوں نے بہت کم عرصے میں سکواش کھیلنا سیکھ لیا ہے۔
شیر بہادر نے بتایا: ’جب بھی کوئی ثنا کو اشاروں کی زبان میں کچھ بتاتا ہے تو ان کو بہت جلد سمجھ آجاتی ہے۔‘
ثنا نے اب تک آٹھ گولڈ میڈلز مختلف مقابلوں میں اپنے نام کیے ہیں۔
شیر بہادر نے بتایا کہ 2016 میں انڈر 23 کے مقابلوں میں انہوں نے حصہ لیا تھا اور گولڈ میڈل جیتا تھا۔ اس کے بعد 2017 اور 2018 میں انڈر 21 بین الصوبائی مقابلوں میں حصہ لیا تھا اور اس میں گولڈ میڈل اپنے نام کر لیا تھا۔
ثنا نے حالیہ دنوں میں صوبائی انڈر 15 مقابلوں میں بھی حصہ لیا تھا اور اس میں بھی فائنل جیت کرگولڈ میڈل اپنے نام کیا تھا۔