قبائلی اضلاع انضمام کے تین سال، فوج کو کیا تشویش ہے؟

قبائلی اضلاع کے انضمام کو اس ماہ تین سال مکمل ہو جائیں گے لیکن اس عرصے میں وہاں ترقیاتی مد میں کیا کچھ ہوا اور کیوں پاکستان فوج کو وہاں کی تیز ترقی پر ایک مرتبہ پھر زور دینے کی ضرورت پیش آئی ہے؟

قبائلی ضلع شمالی وزیرستان کا ایک منظر۔ قبائلی اضلاع کو خیبر پختونخوا میں ضم ہوئے تین سال ہونے جا رہے ہیں (اے ایف پی فائل)

افغانستان کے ساتھ مغربی سرحد پر واقع پاکستان کے قبائلی اضلاع کے انضمام کو اس ماہ تین سال مکمل ہونے کو ہیں لیکن اس عرصے میں وہاں ترقیاتی مد میں کیا کچھ ہوا اور کیوں پاکستان فوج کو وہاں کی تیز ترقی پر ایک مرتبہ پھر زور دینے کی ضرورت پیش آئی ہے؟

افغانستان میں کئی دہائیوں سے جاری جنگ کی وجہ سے خیبرپختونخوا میں شامل کیے گئے یہ سات اضلاع ہمیشہ اہمیت کے حامل رہے ہیں۔

قبائلی اضلاع کی صورت حال کا جائزہ کافی عرصے بعد 25 مئی کو راولپنڈی میں پاکستان فوج کے جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) میں کور کمانڈرز اجلاس میں بھی لیا گیا۔

آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے، جو اس اجلاس کی سربراہی کر رہے تھے، نئے اضلاع کی معاشرتی و اقتصادی ترقی کے لیے تیز تر اقدامات اٹھانے پر زور دیا اور کہا کہ ’ان اقدامات سے بڑی قربانیوں کے بعد حاصل ہونے والے امن کو استحکام مل سکے گا۔‘

مبصرین کے مطابق فوج کی ان اضلاع کی ترقی پر دوبارہ زور سرحد پار افغانستان کی تیزی سے تبدیل ہوتی صورت حال بھی ہے۔

امریکی فوجی انخلا کے اعلان اور اس پر عمل درآمد کے آغاز کے بعد ہمسایہ ملک میں حالات میں مزید خرابی ان اضلاع کو ایک مرتبہ پھر متاثر کرسکتی ہے۔ فوج کے بیان کا مقصد اس خطے کو پھر شدت پسندی کی کسی تازی لہر سے ترقی کے ذریعے بچانا ہے۔

سابق سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ کا گذشتہ دنوں ایک جناح انسٹی ٹیوٹ کے ایک مباحثے میں کہنا تھا کہ اگر افغانستان میں خانہ جنگی شروع ہو جاتی ہے تو اس سے پاکستان پر برا اثر پڑے گا۔

انہوں نے کہا کہ اسلام آباد کو بدترین حالات کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ ’تنازعہ میں اضافہ پاکستان کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ داعش اور ٹی ٹی پی جیسے عسکریت پسند گروہ غیر ملکی افواج کے انخلا سے حوصلہ افزائی حاصل کر سکتے ہیں۔ تشدد میں اضافے کے ساتھ پاکستان کو سرحد پر سرگرم دہشت گرد گروہوں سے خود کو محفوظ رکھنے کے طریقے تلاش کرنے ہوں گے۔‘

ادھر خیبر پختونخوا کی حکومت نے صوبائی اسمبلی میں رواں ہفتے ایک متفقہ قرارداد میں 2017 کی مردم شماری کے تناظر میں صوبے کو دیے جانے والے مالی حصے کو بڑھانے کا مطالبہ کیا ہے۔

اس مطالبے کی ایک وجہ قبائلی اضلاع کا انضمام بھی ہے۔ یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں پیش کی گئی جب قبائلی علاقہ جات کے خیبر پختونخوا میں انضمام کو رواں ماہ تین سال پورے ہونے کو ہیں اور نیا مالی سال شروع ہونے میں ایک ماہ رہ گیا ہے۔

جماعت اسلامی کے رکن صوبائی اسمبلی اور سابق وزیر عنایت اللہ خان کی جانب سے پیش کی گئی اس قرارداد کو متفقہ طور پر منظور کر لیا گیا جس میں مطالبہ کیا گیا کہ مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کی جانب سے منظور کیے گئے 2017 کی مردم شماری کے نتائج کی رو سے صوبے کی آبادی میں اضافے کے باعث نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) میں اس کا حصہ بھی بڑھنا چاہیے۔

رکن صوبائی اسمبلی عنایت اللہ خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ مشترکہ مفادات کونسل کی جانب سے مردم شماری کی منظوری کے بعد این ایف سی میں اضافی حصہ نہ دینے کا کوئی جواز نہیں رہا۔

انہوں نے کہا: ’فیڈرل ڈیویزیبل پول میں آبادی کے تناسب سے اب تک خیبر پختونخوا کا حصہ 14 فیصد تھا۔ تاہم 2017 کی مردم شماری کے تناظر میں یہ حصہ 19 فیصد سے زائد بنتا ہے۔ اس کے علاوہ اگر بےگھر افراد سمیت قبائلی اضلاع کی پوری آبادی کا شمار کیا جائے تو خیبر پختونخوا کا حصہ اس سے بھی زیادہ بنتا ہے۔‘

عنایت اللہ خان نے بتایا کہ این ایف سی ایوارڈ میں صوبے کا جائز حصہ ملنے سے ضم شدہ قبائلی اضلاع کا بھی فائدہ ہوگا۔

انہوں نے بتایا کہ اسی ضمن میں حزب اختلاف قبائلی اضلاع کے ترقیاتی کاموں کا جائزہ لینے کے لیے ایک اجلاس بلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔

صوبے کی اپوزیشن کئی قبائلیوں کی طرح قبائلی اضلاع میں ترقیاتی کاموں کی رفتار سے مطمئن نہیں۔ جماعت اسلامی کے عنایت اللہ خان کے بقول تحریک انصاف حکومت کی ترقیاتی کاموں کے حوالے کارکردگی مایوس کن ہے۔

’اسی طرح قبائلی اضلاع میں بھی ترقیاتی کام نہایت سست روی کے شکار ہیں۔ وجہ حکومت کی نااہلی اور بیوروکریٹک رکاوٹیں ہیں۔‘

 ضم شدہ اضلاع میں ترقیاتی کاموں کی حقیقت

ضلع خیبر کے سماجی کارکن عامر آفریدی نے شکوہ کرتے ہوئے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ حکومت کی دلچسپی کے کام تو راتوں رات پایہ تکمیل کو پہنچ جاتے ہیں جبکہ عوامی فلاح وبہبود کے وہ منصوبے جن میں کوئی سیاسی فائدہ نہیں ہوتا وہ سالہا سال گزر جانے کے بعد ادھورے پڑے ہوتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا: ’صحت وتعلیم ہم قبائلیوں کی اولین ترجیحات میں سے ایک ہے۔ آج بھی کہیں صحت کے مراکز نہیں تو کہیں ان میں عملہ اور سہولیات کی کمی ہے۔ کہیں سکول نہیں تو کہیں اساتذہ کی کمی جسے آج تک پورا نہیں کیا جا سکا۔‘

اسی وجہ سے انضمام کے کئی مخلاف گروپ سرگرم ہوتے دکھائے دے رہے ہیں۔ ان میں سے ایک خیبر قومی جرگہ سوموار کو جمرود میں انضمام کے خلاف احتجاج کا ارادہ رکھتا ہے۔

قبائلی اراکین صوبائی اسمبلی کا شکوہ

این ایف سی ایوارڈ میں زیادہ حصے کا مطالبہ کرنے والوں کا موقف ہے کہ چونکہ سابق فاٹا بھی اب خیبر پختونخوا کا حصہ ہے لہٰذا ان اضلاع میں ترقی کے کام جاری رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ صوبے کے پاس آبادی کے تناسب سے فنڈز موجود ہوں۔

لیکن قبائلی اضلاع سے تعلق رکھنے والے چھ اراکین صوبائی اسمبلی نے گذشتہ روز اسمبلی فلور پر احتجاج کرتے ہوئے کہا کہ انضمام کے وقت قبائلی علاقوں کے ساتھ کیے گئے وعدے ابھی تک پورے نہیں کیے گئے۔

 2018 میں فاٹا انضمام کے وقت قبائلیوں کے ساتھ حکومت پاکستان نے وعدہ کیا تھا کہ ان کے علاقوں کی ترقی کے لیے 10 سالہ منصوبے کے تحت ایک ہزار ارب روپے دیے جائیں گے۔ اس تناسب سے ان اضلاع کا حصہ ہر سال 100 ارب روپے بنتا ہے۔

باجوڑ سے جماعت اسلامی کے رکن صوبائی اسمبلی سراج الدین خان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان اضلاع کے ارکین صوبائی اسمبلی کو ترقیاتی فنڈ نہ دینے اور انضمام کے وقت کیے گئے وعدوں کی عدم تکمیل کے سبب وہ اور ان کے دیگر ساتھی بجٹ سیشن تک اسمبلی کے اندر سپیکر کے ڈائس کے سامنے زمین پر بیٹھ کر احتجاج کریں گے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت نے سالانہ سو ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن ابھی تک بمشکل 24 ارب روپے ہی خرچ کیے گئے ہیں، اور زیادہ تر پیسہ غیرترقیاتی کاموں پر لگایا گیا۔

انہوں نے بتایا کہ: ’اپوزیشن کے ایک رکن صوبائی اسمبلی کا ترقیاتی فنڈ میں 35 فیصد حصہ ہوتا ہے جو ہمیں نہیں دیا جا رہا۔ میرے علاقے باجوڑ میں کئی مسائل ہیں، اور میں ان کا نمائندہ ہوں لیکن میں اپنی جیب سے لوگوں کے مسائل حل نہیں کر سکتا۔ جب کہ حکومتی فنڈ رکن قومی اسمبلی کو مل رہے ہیں جو ایم پی اے سے مشاورت کیے بغیر خرچ کیے جاتے ہیں اس طرح اصل مسائل دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں۔‘

سراج الدین خان نے بتایا کہ اب  وہ ذاتی مقصد کے لیے نہیں بلکہ تمام قبائلی اضلاع کے لیے آواز اٹھا رہے ہیں اور حکومت سے سوال کر رہے ہیں کہ ان سے کیے گئے وعدے کیوں پورے نہیں ہوئے۔

’ضم شدہ اضلاع میں بجلی، پانی، صحت، تعلیم اور انفراسٹرکچر کے مسائل کے حل کے لیے قبائلی عوام ابھی بھی کسی مہربان کی راہ تک رہے ہیں۔ ‘

دیگر صوبوں کے وعدے کیا ہوئے؟

این ایف سی ایوارڈ سے متعلق قرارداد اور ضم شدہ اضلاع کی ترقی پر بات کرتے ہوئے صوبائی وزیر خزانہ تیمور جھگڑا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ سابق فاٹا میں ترقیاتی کام نہ ہونے یا ان میں سست روی کے لیے صرف تحریک انصاف حکومت کو ذمہ دار ٹھہرانا غلط ہوگا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ خیبر پختونخوا حکومت نے ان علاقوں میں کئی ترقیاتی کاموں کے لیے فنڈز صوبے کے بجٹ سے فراہم کیے اور حال ہی میں فوڈ سبسڈی کے تقریباً 15 ارب روپے بھی خیبر پختونخوا نے اپنے بجٹ سے دیے۔

’انضمام سے پہلے فاٹا کی ترقی کے لیے پاکستان کے دیگر صوبوں نے بھی اس وقت وعدے کیے تھے، جو پورے نہیں کیے۔ فاٹا کے لیے پانچ کروڑ کا بجٹ انضمام کے بعد صرف تحریک انصاف نے 100 ارب تک پہنچایا۔ اس کے علاوہ 50 ارب روپے ہم نے قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے مختص کیے ہیں، جس کو رواں سال ہم دو چند کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔‘

این ایف سی کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ 2017 کی مردم شماری کے بعد صوبہ خیبر پختونخوا کی آبادی کے حساب سے انہیں حصہ ضرور ملے گا۔ ’ہماری کوشش ہوگی کہ رواں سال ہمارا جو جائز حصہ بنتا ہے وہ ہمیں مل جائے۔ اس معاملے پر ہم مرکز کے ساتھ رابطے میں ہیں کہ وہ باقی صوبوں کو بھی اس پر آمادہ کرے۔‘

این ایف سی ایوارڈ کیا ہے؟

1951 میں لیاقت علی خان کے دور میں آئین کے آرٹیکل 160 کے تحت پاکستان کے وسائل کو مدنظر رکھتے ہوئے چاروں صوبوں کے مالی اخراجات اٹھانے اور اس میں نظم وضبط لانے کے لیے اس ایوارڈ کی بنیاد رکھی گئی۔ لیکن اب تک صرف 10 بار ہی یہ ایوارڈ منعقد ہو سکا۔

وفاق اور صوبوں کے درمیان مالی فنڈز کی تقسیم ایک فارمولے کے تحت ہوتی ہے۔ این ایف سی فنڈز وہ رقم ہوتی ہے جو انکم ٹیکس، سیلز ٹیکس، ویلتھ ٹیکس، کیپٹل گینز ٹیکس اور کسٹم ڈیوٹی ٹیکس کی آمدن سے جمع ہوتی ہے اور بعد میں صوبوں میں آبادی کے اعتبار سے تقسیم کی جاتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان