’ایران کے یورینیم ذخائر 16 گنا زائد‘: عالمی ادارے کو تشویش

اقوام متحدہ کی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ایران نے ممکنہ غیراعلانیہ ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

10  اپریل 2021 کی اس تصویر میں ایک ویڈیو کانفرنس کے سکرین گریب میں ایک  انجینیئر کو ایران کے نطنز میں واقع یورینیم افزودہ کرنے کے پلانٹ میں دیکھا جاسکتا ہے (تصویر: اے ایف پی)

عالمی سطح پر ایٹمی سرگرمیوں کی نگرانی کرنے والے اقوام متحدہ کی بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی (آئی اے ای اے) کا کہنا ہے کہ ایران کے پاس 2015 میں طے شدہ جوہری معاہدے کے تحت افزودہ یورینیم کی مقدار مقررہ حد سے 16 فیصد زیادہ ہے۔

ادارے نے اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا ہے کہ ایران نے ممکنہ غیراعلانیہ ایٹمی سرگرمیوں کے بارے میں پوچھے گئے سوالات کا جواب نہیں دیا۔

خبر رساں ادارے  اے ایف پی کے مطابق آئی اے ای اے نے پیر کو جو دو رپورٹس جاری کی ہیں، وہ ایران کی جانب سے فروری میں ایٹمی توانائی کے بعض معائنوں کو معطل کیے جانے کے بعد سے پہلی ٹھوس رپورٹیں ہیں۔

آئی اے ای اے نے گذشتہ ہفتے کہا تھا کہ اس نے ایران کے ساتھ اس عارضی معاہدے کی مدت میں 24 جون تک توسیع کر دی ہے جس کے تحت ایرانی ایٹمی تنصیبات کے کئی معائنے جاری رکھے جا سکتے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق آئی اے ای اے کے ڈائریکٹر جنرل رافیئل گروسی کو اس بات پر’تشویش ہے کہ عالمی ادارے اور ایران کے درمیان تکنیکی نوعیت کی بات چیت کے متوقع نتائج برآمد نہیں ہوئے۔‘

اس ضمن میں ان ایٹمی تنصیبات پر دستاویزات کے تبادلے کا حوالہ دیا گیا ہے جہاں اس بات کا امکان ہے کہ وہاں غیراعلانیہ ایٹمی سرگرمیاں جاری رہی ہیں۔

یہ نتیجہ آئی اے ای اے کی ’اس فعال اور مرکوز کوشش‘ کے باوجود نکالا گیا ہے جو اس نے اپریل میں ان ایٹمی تنصیبات پر جاری تعطل کے خاتمے کے لیے شروع کی تھی۔

آئی اے ای اے کا کہنا ہے کہ اس کی جانب سے کیے گئے معائنے کے نتیجے میں واضح اشارہ ملا ہے کہ تین غیر اعلانیہ مقامات پر ایٹمی مواد یا ایٹمی مواد سے آلودہ آلات موجود ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان مقامات پر ہونے والی ایٹمی سرگرمیوں، جن پر سوال اٹھایا گیا ہے،کا آغاز ماضی میں دوہزار کی دہائی میں ہوا۔اد ارے نے یہ بھی کہا ہے کہ چوتھی سائٹ کے بارے میں جواب دینے میں ایران ناکام رہا ہے جہاں 2002 اور 2003 کے درمیان قدرتی یورینیم دھاتی ڈسک کی شکل میں موجود رہا ہے۔

سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی 2018 میں ایٹمی معاہدے سے علیحدگی کے بعد ایران اور عالمی طاقتیں 2015  کے معاہدے کی بحالی کے لیے آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں مذاکرات کر رہے ہیں۔ امریکہ کے نئے صدر جو بائیڈن اشارہ دے چکے ہیں کہ وہ اس معاہدے کی بحالی کے تیار ہیں۔

دوسری جانب معاملے کے بارے میں علم رکھنے والے ایک سینیئر سفارت کار نے کہا ہے کہ بعض ایرانی ایٹمی تنصیبات کا معائنہ معطل کرنے کا مطلب ہے کہ آئی اے ای اے افزدہ یورینیم کی مقدار کے بارے میں درست اعدادوشمار نہیں دے سکا۔ ادارے کی جانب سے اعلانیہ سائٹس تک رسائی کی سطح میں زیادہ کمی نہیں کی گئی اوریورینیم کے ذخیرے کے معاملے میں اس کا اندازہ معمولی کمی بیشی کے ساتھ اب بھی درست ہوگا۔

آئی اے ای اے نے پیر کی رپورٹ میں اندازہ لگایا ہے کہ یورینیم کے ذخیرے میں 62.8 کلوگرام یورینیم کو 20 فیصد تک اور 2.4 کلوگرام یورینیم کو60 فیصد تک افزودہ کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ 2015 کے ایٹمی معاہدے کے تحت ایران یورینیم کو3.67 فیصد تک افزودہ کر سکتا ہے۔

آئی اے ای اے کی گذشتہ فروری کی سہ ماہی رپورٹ کے بعد سے یورینیم افزودہ کرنے کی شرح میں سست روی آئی ہے۔ ایران نے اپریل میں کہا تھا کہ اس کی نطنز کی ایٹمی تنصیب میں ’چھوٹا دھماکہ‘ ہوا ہے، جسے تہران کی جانب سے اسرائیلی تخریب کاری قرار دیا گیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا