منظور پشتین ’کچھ وقت کے لیے حراست‘ میں رہنے کے بعد رہا

کوہاٹ پولیس کے سربراہ سہیل خالد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’منظور پشتین کو گرفتار نہیں بلکہ کچھ وقت کے لیے حراست میں لیا گیا تھا کیونکہ ضلع بنوں پولیس کچھ وجوہات کی بنا پر انہیں بنوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔‘

پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین(فائل فوٹو: اے ایف پی)

پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے سربراہ منظور پشتین جو جعمے کی صبح کوہاٹ پولیس کی جانب سے حراست میں لیے گئے تھے، انہیں رہا کیا جا چکا ہے۔

ضلع کوہاٹ خیبر پختونخوا پولیس کا کہنا ہے کہ منظور پشتین کو ’کچھ وقت کے لیے‘ روکے جانے کے بعد اب چھوڑ دیا گیا ہے۔

کوہاٹ پولیس کے سربراہ سہیل خالد نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’منظور پشتین کو گرفتار نہیں بلکہ کچھ وقت کے لیے حراست میں لیا گیا تھا کیونکہ ضلع بنوں پولیس کچھ وجوہات کی بنا پر انہیں بنوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔‘

پی ٹی ایم سربراہ منظور پشتین کو خیبر پختونخوا کے ضلع کوہاٹ کی پولیس کی جانب سے جمعے کو اس وقت ’روکا گیا‘، جب وہ ضلع بنوں کے علاقے جانی خیل میں ایک دھرنے میں شرکت کے لیے جا رہے تھے۔

کوہاٹ پولیس کے ترجمان فضل نعیم نے انڈپینڈنٹ اردو کو تصدیق کرتے ہوئے بتایا کہ منظور پشتین کو آج صبح تقریباً سات بجے کوہاٹ میں خوشحال گڑھ پل کی پولیس چوکی پر جانی خیل جانے سے روک دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ ضلع بنوں کے جانی خیل علاقے میں گذشتہ تین دن سے ایک مقامی شخص کے مبینہ قتل کے خلاف دھرنا جاری ہے۔ منظورپشتین اسی دھرنے میں شرکت کرنے کے لیے اپنے ساتھیوں سمیت جا رہے تھے۔

منظور پشتین کو پولیس کی جانب سے حراست میں لینے کے حوالے سے پی ٹی ایم کے رہنما و رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے ٹویٹ کی کہ ’منظور پشتین کو جانی خیل دھرنے میں شرکت سے روکنا اور ان کو گرفتار کرنا شرم ناک اقدام ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید لکھا کہ ’اپنے حق کے لیے آواز بلند کرنا جرم نہیں ہے۔ محسن داوڑ نے منظور پشتین سمیت پی ٹی ایم کے دیگر کارکنان کی رہائی کا بھی مطالبہ کیا۔‘

منظور پشتین کو پولیس کی جانب سے روکے جانے کی ایک ویڈیو بھی سوشل میڈیا پر شیئر ہو رہی ہے، جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ ایک پولیس اہلکار سے کہتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں کہ ’ہم اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں اور اسی کے لیے نکلے ہیں اور آپ ہمیں روک رہے۔‘

جس پر پولیس اہلکار انہیں کہتے ہیں کہ ’آپ ہمارے ساتھ 15 منٹ رک جائیں کوئی مسئلہ نہیں ہوگا اور اس کے بعد آپ کو چھوڑ دیا جائے گا۔‘

منظور پشتین کو روکے جانے کے خلاف ٹویٹر پر ایک ٹرینڈ #ReleaseManzoorPashteen بھی جمعے کی صبح سے چلا، جہاں صارفین ان کی رہائی کا مطالبہ کر رہے تھے۔

لاہور سے تعلق رکھنے والے پروفیسر اور سماجی کارکن عمار علی جان نے ٹوئٹر پر لکھا: ’منظور پشتین کی گرفتاری تشویش ناک ہے اور یہ پاکستان میں سیاسی کارکنوں، صحافیوں اور سماجی کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کی ایک کڑی ہے۔‘

جانی خیل دھرنا

ضلع بنوں کا علاقہ جانی خیل چند ماہ قبل پاکستان میں اس وقت خبروں کی زینت تب بنا جب وہاں کے مقامی لاپتہ نوجوانوں کو نا معلوم افراد کی جانب سے قتل کرکے ان کی لاشیں ایک گڑھے میں دفنا دی گئی تھیں۔

لاشیں برآمد ہونے کے بعد وہاں کے مقامی لوگوں نے دھرنا شروع کیا جو ایک ہفتے سے زائد تک جاری رہا۔ اس کے بعد حکومتی نمائندوں نے دھرنا منتظمین سے مذاکرات کیے اور دھرنا ختم کردیا گیا۔

اب گذشتہ چار روز سے جانی خیل میں دوبارہ دھرنا جاری ہے۔ یہ دھرنا جانی خیل کے ایک مقامی شخص ملک نصیب خان کے مبینہ قتل کے خلاف ہو رہا ہے۔ دھرنے میں مقامی افراد سمیت پی ٹی ایم کے کارکنان بھی شریک ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان