وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کا کہنا ہے کہ وزیراعظم عمران خان کی جانب سے ہدایات جاری کی گئی ہیں کہ جہاں اردو رائج کر سکیں وہاں فوری طور پر اردو رائج کی جانی چاہیے۔
انہوں نے یہ بات وزیراعظم ہاؤس کی جانب سے جاری ہونے والے ایک سرکاری مراسلے کے حوالے سے کہی جس میں کہا گیا ہے کہ ’اب سے وزیراعظم عمران خان جس بھی تقریب میں جائیں گے اس کا انعقاد قومی زبان اردو میں ہو گا۔‘
تاہم وزیر اعظم ہاؤس سے جاری ہونے والا یہ مراسلہ اردو زبان کی بجائے انگریزی زبان میں ہے۔
اس حوالے سے جب وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے پوچھا گیا کہ کیا مراسلہ بھی اردو میں نہیں ہونا چاہیے تھا؟
تو فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ’مراسلہ اس لیے انگریزی میں ہے کہ دفتری زبان انگریزی ہے۔‘
ان کا کہنا تھا کہ ’1859 سے ہمارے ہاں سرکاری خط و کتابت انگریزی زبان میں ہو رہی ہے اس طویل مدت سے جاری پریکٹس کو بدلنے کے لیے وقت درکار ہو گا۔‘
’ہمارے تمام قوانین، رولز اور ریگولیشنز انگریزی میں ہیں۔ اردو کی ترویج کا مطلب انگریزی کی حوصلہ شکنی نہیں، انگریزی زبان کو بولنا اور سمجھنا ضروری ہے۔‘
وزیراعظم عمران خان نے احکامات دئیے ہیں کہ ایسے تمام پروگرامز تقاریب کانفرنس ایونٹ جو وزیراعظم کے لیئے مرتب اور منعقد کیئے جائیں گے وہ آج کے بعد قومی زبان اردو میں مرتب کیئے جائیں گے۔قومی زبان ہمارا فخر ہےاور جب دوسرے ممالک اپنی اپنی قومی زبان استعمال کرتے ہیں تو ہم کیوں نہیں؟
— Dr. Shahbaz GiLL (@SHABAZGIL) June 5, 2021
انہوں نے مزید کہا کہ ’وزیر اعظم سمجھتے ہیں کہ جہاں ہم اردو رائج کر سکیں وہاں فوری طور پر اردو رائج کی جانی چاہیے اور یہ مراسلہ بھی اسی پس منظر کا عکاس ہے۔‘
یہ مراسلہ تمام سرکاری محکموں کو جاری کر دیا گیا ہے جس کا مقصد قومی زبان کا فروغ ہے لیکن کیا یہ اقدام پہلی بار کیا گیا ہے؟
سپریم کورٹ کے سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ جو صرف 24 دن کے لیے چیف جسٹس کے عہدے پر فائز رہے اور اس کے بعد ریٹائر ہو گئے تھے انہوں نے اردو کے فروغ اور سرکاری دفتری سطح پر اس کی ترویج کے لیے آٹھ ستمبر 2015 میں تاریخی فیصلہ دیا تھا۔
اس فیصلے پر ان کے دور میں تو کچھ حد تک ہی عمل ہوا لیکن اس کے بعد سے آج تک وہ عدالتی فیصلہ عمل درآمد کا منتظر ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سابق چیف جسٹس جواد ایس خواجہ کے چیف جسٹس بننے سے پہلے بھی ان کی عدالت میں فیصلہ دو زبانوں میں جاری ہوتا تھا بلکہ سماعت کے اختتام پر جب عدالتی عملے کو مختصر فیصلہ کمرہ عدالت میں لکھوایا جاتا تو وہ اس وقت بھی اردو میں ہی لکھوایا کرتے تھے تاکہ عام سائلین کو سمجھنے میں آسانی ہو۔
واضح رہے کہ گذشتہ برس سپریم کورٹ میں ایک اغوا کے مقدمے کی سماعت کے دوران مغوی بچی کے والدین نے میڈیا پر دہائی دی تھی کہ ’انہیں علم نہیں کہ عدالتی کارروائی میں کیا باتیں ہوئیں کیونکہ جج صاحبان انگریزی میں مکالمہ کر رہے تھے۔‘
سپریم کورٹ کے اردو فیصلہ نافذ کرنے سے متعلق جب وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری سے پوچھا گیا تو ان کا کہنا تھا کہ ’سپریم کورٹ پالیسی امور پر فیصلوں سے جتنا اجتناب کرے اتنا پاکستان کے لیے بہتر ہے۔‘
انہوں نے اس حوالے سے مزید کہا کہ ’ججوں کو نا قابل عمل اور کم فہمی پر مبنی فیصلوں سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘
دوسری جانب وزیراعظم ہاؤس کا مراسلہ منظر عام پر آنے کے بعد سرکاری دفاتر میں انگریزی مراسلوں پر دوبارہ بحث چِھڑ گئی ہے۔
ماشاءاللہ ، اردر کی ترویج کے لیے انگریزی کا نوٹیفکیشن ، عمل درآمد بھی اس طرح ہی ہو گا https://t.co/eFP1mDPf4L
— Saqib bashir (@saqibbashir156) June 5, 2021
بہت سے صارفین کا یہ کہنا ہے کہ مراسلے کا متن ہے کہ تقریبات کا انعقاد اردو میں ہو گا لیکن وہی بات انگریزی میں کی گئی ہے۔
عدالتی صحافی ثاقب بشیر نے کہا کہ ’ماشاءاللہ، اردو کی ترویج کے لیے انگریزی کا نوٹیفکیشن، عمل درآمد بھی اس طرح ہی ہو گا۔‘
سرکاری پریس ریلیز، بیانات، وضاحتی بیانات، پالیسی بیانات، خبریں، فیصلے، نوٹیفکیشن اور سرکاری افسران کی ٹویٹس بھی اگر اردو میں ہوں تو کروڑوں لوگوں تک پہنچ سکتی ہیں، جس سے عام شہریوں کو بھی معلومات ملیں، حکومتی اقدامات اور فیصلوں کا علم ہو https://t.co/urCefsiTdQ
— Obaid Bhatti (@Obibhatti) June 5, 2021
ایک اور سوشل میڈیا صارف نے کہا کہ ’سرکاری پریس ریلیز، بیانات، وضاحتی بیانات، پالیسی بیانات، خبریں، فیصلے، نوٹیفکیشن اور سرکاری افسران کی ٹویٹس بھی اگر اردو میں ہوں تو کروڑوں لوگوں تک پہنچ سکتی ہیں۔‘