فون پر نازیبا کلمات کا سکینڈل: کشمیر کے وزیراعظم پر استعفے کا دباؤ

وزیراعظم راجہ فاروق حیدر ماضی میں اپنے متنازع سیاسی بیانات کے باعث کئی بار تنازعات کا شکار ہو چکے ہیں تاہم اس بار انہیں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے اندر سے بھی مخالفت کا سامنا ہے۔

دوسری بار پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم منتخب ہونے والے راجہ فاروق حیدر اپنے سیاسی بیانات کے باعث اکثر تنازعات کا شکار رہتے ہیں۔ تصویر: فاروق حیدر خان  ٹوئٹر

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم راجہ فاروق حیدر خان سے منسوب دو فون کالز کی ریکارڈنگ منظر عام پر آنے کے بعد حزب اختلاف کی جماعتیں ان سے استعفیٰ مانگ رہی ہیں اور اب ان کی اپنی جماعت کے کچھ اراکین بھی اس مطالبے میں شامل ہو چکے ہیں۔

راجہ فاروق حیدر کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ وہ اگست 2016 میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے بارہویں وزیراعظم منتخب ہوئے۔

گذشتہ کچھ دنوں سے سوشل میڈیا پر دو الگ الگ ریکارڈنگز گردش کر رہی ہیں، جن میں سے ایک میں فاروق حیدر اپنی کابینہ میں شامل وزیر تعلیم افتخار گیلانی جبکہ دوسری میں کسی نامعلوم شخص سے بات کر رہے ہیں۔

دونوں میں سے ایک ریکارڈنگ میں وہ اپنی جماعت کے ایک سینیئر رہنما اور ماضی میں پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر اور وزیر اعظم رہنے والے سردار سکندر حیات اور اپنی کابینہ کے ایک وزیر راجہ عبدالقیوم خان کی ماضی میں مشترکہ کرپشن کے حوالے سے بات کر رہے ہیں جبکہ دوسری ریکارڈنگ مبینہ طور پر حال ہی میں حکمران جماعت سے علیحدگی اختیار کرنے والی ایک خاتون رہنما کے متعلق ہے۔ اس ریکارڈنگ میں فاروق حیدر نے نام لیے بغیر اس خاتون کے متعلق نازیبا کلمات ادا کیے ہیں۔

وزیراعظم راجہ فاروق حیدر ماضی میں بھی اپنے متنازع سیاسی بیانات کے باعث کئی بار تنازعات کا شکار ہو چکے ہیں تاہم اس مرتبہ یہ سکینڈل سامنےآنے کے بعد انہیں اپوزیشن جماعتوں کے ساتھ ساتھ اپنی جماعت کے اندر سے بھی مخالفت کا سامنا ہے۔

وزیراعظم کی مبینہ ٹیلی فون کالز کی ریکارڈنگز سامنے آنے کے بعد ان کے روایتی حریف، آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس کے سابق سربراہ اور سابق وزیر اعظم سردار عتیق احمد خان نے فاروق حیدر کے خلاف ریاست بھر میں 'عزت بچاؤ مہم' کے نام سے احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان کر رکھا ہے۔ سردار عتیق احمد خان کے بقول 'یہ تحریک وزیراعظم کے استعفے تک جاری رہے گی۔'

حزب اختلاف کی دوسری جماعتیں جن میں پاکستان پیپلز پارٹی، جموں و کشمیر پیپلز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف شامل ہیں، بھی اسی نوعیت کا مطالبہ کر چکی ہیں۔ علاوہ ازیں فاروق حیدر کی اپنی جماعت مسلم لیگ (ن) کے چند اراکین اسمبلی بھی ان ریکارڈنگز کی تحقیقات کے علاوہ ڈھکے چھپے لفظوں میں وزیراعظم کے استعفے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

حالیہ ریکارڈنگز سامنے آنے کے بعد ابھی تک وزیر اعظم یا ان کے دفتر کی جانب سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا تاہم ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ یہ ریکارڈنگز مختلف کالز اور نجی محفلوں میں ہونے والی گفتگو کی ریکارڈنگ کو جوڑ کر مرتب کی گئی ہے اور اس سلسلے میں تحقیقات کی جا رہی ہیں۔

پریس سیکریٹری راجہ وسیم کے مطابق ابتدائی تحقیقات میں وزیر اعظم کے سٹاف میں شامل ڈیوٹی آفیسر سعید اختر کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے وزیراعظم کی کالز اور گفتگو ریکارڈ کرکے سوشل میڈیا پر پھیلانے میں مدد دینے کے جرم میں سپیشل پاور ایکٹ کے تحت نوکری سے برخاست کرنے کی کارروائی شروع کی جا رہی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان