نازیبا زبان: سات اراکین کا قومی اسمبلی میں داخلہ بند

سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت تحقیقاتی کمیٹی نے14 اور 15 جون کو ہونے والے ہنگامے کی انکوائری مکمل کرلی ہے، جس کے مطابق نازیبا زبان استعمال کرنے والے سات اراکین کو تاحکم ثانی اسمبلی میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔

15 جون کو ہونے والے قومی اسمبلی اجلاس میں ہنگامہ آرائی کا ایک منظر(ویڈیو سکرین گریب: شیزا فاطمہ، رکن قومی اسمبلی، مسلم لیگ ن)

قومی اسمبلی کے سپیکر اسد قیصر کی زیر صدارت تحقیقاتی کمیٹی نے ایوان میں 14 اور 15 جون کو بجٹ اجلاس کے دوران ہونے والے ہنگامے اور نعرے بازی کے واقعے کی انکوائری مکمل کرلی ہے، جس کے بعد نازیبا زبان استعمال کرنے والے سات اراکین کو تاحکم ثانی اسمبلی میں داخلے کی اجازت نہیں ہوگی۔

سپیکر قومی اسمبلی کی جانب سے جاری کیے گئے نوٹس کے مطابق جن اراکین اسمبلی پر پابندی عائد کی گئی ہے، ان میں علی گوہر خان، چوہدری حامد حمید، شیخ روحیل اصغر، فہیم خان، آغا رفیع اللہ، عبدالمجید خان اور علی نواز اعوان شامل ہیں۔

پابندی کا شکار ہونے والے اراکین میں سے فہیم خان، عبدالمجید خان اور علی نواز اعوان کا تعلق پاکستان تحریک انصاف سے ہے۔ چوہدری حامد حمید اور شیخ روحیل اصغر کا تعلق مسلم لیگ ن سے، آغا رفیع اللہ کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے جبکہ علی گوہر خان کا تعلق گرینڈ ڈیموکریٹک الائنس ہے۔

بدھ کو پانچ منٹ کے اجلاس کی کارروائی میں سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر نے کہا کہ ’14 اور 15 جون کو ایوان میں جو ہوا وہ افسوس ناک ہے۔ کچھ ایکشن بھی لیا ہے لیکن اب اپوزیشن کی جانب سے رانا تنویر نے پارلیمانی کمیٹی بنانے کی تجویز دی ہے۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’اپوزیشن اور حکومت چھ چھ ممبران کے نام دیں، اس طرح اجلاس کی کاروائی نہیں چلاؤں گا، اس لیے سب فیصلہ کریں کہ ایوان کی کاروائی کیسے چلانی ہے۔ رولز میں ترمیم کرنی ہے تو اس کوبھی دیکھ لیں۔‘ جس کے بعد سپیکر اسمبلی نے ایوان کی کارروائی اور کمیٹی کے قیام کا اجلاس موخر کر دیا۔

دوسری جانب اپوزیشن چیمبر میں تمام جماعتوں کے اجلاس کے بعد متحدہ اپوزیشن کی جانب سے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کا فیصلہ کیا گیا۔

اجلاس کے بعد اراکین نے لابی میں صحافیوں سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سپیکر کے خلاف عدم اعتماد کے لیے کمیٹی بھی تشکیل دی جائے گی اور اس حوالے سے کمیٹی کے ارکان کے ناموں پر مشاورت جاری ہے، جسے عدم اعتماد کے لئے ٹاسک دیا جائے گا۔

اسمبلی میں ہوا کیا تھا؟

یاد رہے کہ پیر اور منگل کو ہونے والے قومی اسمبلی کے اجلاس میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تنقید سے بھرپور تقریر نامکمل رہی تھی۔ دوران تقریر حکومتی اراکین سیٹیاں بجاتے رہے جبکہ اپوزیشن اراکین کی جانب سے بجٹ دستاویزات اچھالی گئیں جو تحریک انصاف کی رکن اسمبلی ملیکہ بخاری کے چہرے کو زخمی بھی کرگئیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

منگل کو اپوزیشن لیڈر کی تقریر کے دوران حکمران جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رکن اسمبلی علی نواز اعوان کی مسلم لیگ ن کے اراکین  کے ساتھ ہاتھا پائی بھی ہوئی اور بات انتہائی نازیبا الفاظ اور گالم گلوچ تک جا پہنچی۔

علی اعوان نے ن لیگ کے رکن روحیل اصغر پر کتابیں بھی پھینکیں، جس کا کچھ اراکین اسمبلی دفاع کرتے نظر آئے جبکہ کچھ نے اسے باعث شرم قرار دیا۔

اس حوالے سے وفاقی وزیر فواد چوہدری نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’اپوزیشن بھی حکومتی تقریر کے دوران شور کرتی رہی ہے، اس لیے حکومتی اراکین ایسا کر رہے ہیں۔ مشاورت میں اپوزیشن اراکین کو کہا تھا کہ لکھ کر دیں کہ وہ حکومتی تقاریر کے وقت شور نہیں مچائیں گے تو حکومتی بینچوں سے بھی کوئی شور نہیں کرے گا لیکن اپوزیشن نے لکھ کر یقین دہانی نہیں کروائی۔‘

دوسری جانب تحریک انصاف کے ہی رکن اسمبلی رمیش کمار نے ایوان کے اندر ہونے والے ہنگامے کو باعث شرم قرار دیا تھا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان