مودی کا کشمیر منتر ناکام؟

مرکزی دھارے کی قیادت ہزیمت اٹھانے کے باوجود نہ متحد ہوئی اور نہ ہندوتوا کے کشمیر ایجنڈے کے خلاف کوئی موقف اختیار کرنے کی ہمت ہی کر سکی۔

 وزیر اعظم نریندر مودی کی نئی دہلی میں کشمیری رہنماؤں کےساتھ 5  اگست 2019 کے بعد پہلی ملاقات کے بعد گروپ فوٹو (تصویر: نریندر مودی ٹوئٹر اکاونٹ)

 

یہ تحریر آپ مصنفہ کی آواز میں یہاں سن بھی سکتے ہیں


بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی اور جموں و کشمیر کی قومی دھارے سے وابستہ اس سیاسی قیادت کے بیچ ہونے والی اچانک ملاقات ایک بار پھر عالمی میڈیا کا محور بنی ہے جس کو ریاست کی اندرونی خودمختاری ختم کرتے ہی پابند سلاسل کر دیا گیا تھا۔

عوامی حلقوں اور خاص طور پر مین سٹریم ووٹروں کو یقین تھا کہ ان کی لیڈرشپ دہلی کی کسی بھی پیش کش کو ٹھکرا کر ریاست کا آئین اور خصوصی حثیت کی بحالی تک کوئی بات چیت نہیں کرے گی۔

بلکہ عوام کے بڑے حلقوں نے سوشل میڈیا پر سیاسی جماعتوں کو مودی کی پیش کش کو مسترد کرنے اور تحریک آزادی میں شامل ہونے کا مشورہ بھی دیا تھا۔

مرکزی دھارے کی قیادت ہزیمت اٹھانے کے باوجود نہ متحد ہوئی اور نہ ہندوتوا کے کشمیر ایجنڈے کے خلاف کوئی موقف اختیار کرنے کی ہمت ہی کر سکی۔

بات چیت کے اس عمل کے پیچھے کانگریس کے سینیئر رہنما اور جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی غلام نبی آزاد کی کوششیں بتائی جاتی ہیں جن کے بارے میں خیال ہے کہ انہوں نے مودی کو کشمیر پر اپنی سوچ نرم اور مین سٹریم سے مفاہمت پر مائل کر دیا ہے۔

ساڑھے تین گھنٹے پر محیط بات چیت میں اگرچہ گپکار اتحاد نے چار اگست 2019 کی پوزیشن بحال کرنے کا پر زور مطالبہ کیا ہے مگر جموں سے بی جے پی کے نمائندوں نے ریاست میں انتخابات کروانے اور نئی انتخابی حلقہ بندی پر اکتفا کیا گو کہ اجلاس ختم ہونے کے بعد بعض کے چہرے اترے ہوئے لگ رہے تھے۔ البتہ وزیر اعظم نے آرٹیکل 370 کو بحال کرنے کا کوئی اشارہ نہیں دیا ہے اور نہ انکار کیا ہے۔

مودی حکومت نے دو سال سے جموں و کشمیر کی ہیت، تاریخ، تناسب اور جغرافیہ تبدیل کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے مگر مین سٹریم کو دعوت سخن دینے کے پیچھے بعض وہ بیرونی محرکات کار فرما ہیں جن کی وجہ سے بھارت کی حکومت بےحد دباؤ کا شکار ہے۔

امریکی انتظامیہ نے بھارت کو مشورہ دیا ہے کہ وہ جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی شدید پامالیوں کو روکنے اور جمہوری عمل کو شروع کرنے میں وہاں کی قیادت کو اعتماد میں لینے کا عمل تیز کرے۔

امریکی کانگریس کے کئی اجلاسوں میں کشمیر کی صورت حال پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے بھارت کو اپنی سوچ تبدیل کرنے پر دباو ڈالا گیا ہے جس میں متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب کی ثالثی شامل بتائی جاتی ہے۔

اس کے پیش نظر حالیہ دنوں میں بیشتر سیاسی کارکن رہا کیے گئے ہیں، شہریت کی سندیں جاری کرنے پر فی الحال روک لگا دی گئی ہے اور شہری علاقوں میں فوج کی موجودگی کم کرنے پر صلاح مشورے کیے جا رہے ہیں۔

افغانستان میں امریکی فوجی انخلا کے بعد خطے کی صورت حال میں بڑی تبدیلی کا خدشہ ہے۔ جہاں پاکستان اور چین کے درمیان تجارتی روابط سے مغربی طاقتوں میں بے چینی پائی جاتی ہے وہیں متنازعہ خطے کشمیر میں طالبان کی آمد یا ممکنہ موجودگی پر بھارت کی تشویش بھی بڑھتی نظر آ رہی ہے۔ بھارت نے حال ہی میں اطلاعات کے مطابق افغان طالبان سے رابطے استوار کرنے میں کافی پیش رفت دکھائی جس کی پہلی کڑی دوحہ میں ملاقات سے ملتی ہے۔

لداخ میں چین کی فوجی مداخلت سے بھارت کے دفاعی اخراجات میں بے تحاشا اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ چین کا مطالبہ ہندوستان کے لیے باعث تشویش ہے کہ جموں و کشمیر کی خصوصی حیثیت بحال کر کے لداخ کو ریاست میں واپس ضم کیا جائے جہاں مقامی لداخی بھی نئے انتظامی ڈھانچے سے مطمئن نہیں ہیں۔

جموں و کشمیر کے اندر دو بڑی سیاسی جماعتوں کے مقابلے میں تیسری سیاسی قوت قائم کرنے کی بی جے پی کی کوششیں ناکام ہوئیں ہیں۔

زمینی صورت حال بد سے بد تر ہو چکی ہے۔ انتظامیہ اور عوام کے بیچ نہ کوئی رابطہ ہے اور نہ کسی شہری نے انتظامیہ کو خاطر میں لایا ہے۔ دہلی کی حکومت چند غیر کشمیری افسروں کے سہارے اس خطے کو چلاتی آ رہی ہے جو مودی سرکار کے لیے ایک بڑا چیلنج نظر آ رہا ہے۔

ہندوستان کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی نے ایک بار تقریر کے دوران کہا تھا کہ ’ہندوستان کو چلانا جتنا آسان ہے اُتنا ہی مشکل جموں و کشمیر کا چیلنج ہے۔‘

یہی چیلنج آج اس وقت مودی کے سامنے ہے جنہوں نے اندرونی خودمختاری ختم کرنے سے نہ صرف آزادی کی تحریک کو مضبوط کر دیا ہے بلکہ ایک ارب بیس کروڑ آبادی والے اپنے ملک کو کمزور، غیر مستحکم اور عالمی توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ کیا مودی نے مین سٹریم لیڈرشپ کا آرٹیکل 370 اور 35 اے کی بحالی کا مطالبہ مان لیا ہے یا اور کوئی اور فارمولہ تیار کیا گیا ہے جس کے لیے قیادت کو اعتماد میں لے کر کشمیر تنازعے کو مزید پیچیدہ بنانا مقصود ہے؟

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

مبصرین کا خیال ہے کہ مودی کے زیر قیادت آر ایس ایس نے طویل المدتی حکمت عملی ترتیب دی ہے جس کی شروعات خطے کی نئی انتخابی حلقہ بندی سے شروع کی جا رہی ہے۔ اس کے لیے مین سٹریم کی حمایت حاصل کرنا لازمی ہے تاکہ ریاست کا درجہ دینے کی بابت انتخابات کروائیں جائیں اور دنیا کو باور کرایا جایا کہ کشمیر میں جمہوری عمل شروع کیا گیا ہے۔

جنوبی ایشیا امور کے ماہر اور تجزیہ نگار راحت بٹل کہتے ہیں کہ ’جموں و کشمیر کے تنازعے کو زائل کرنے کے لیے پہلے اس ریاست کے حصے بخرے کرنے ہیں، لداخ کو یونین ٹریٹری بنانے کے بعد اب جموں کو الگ ریاست بنانا ہوگا تاکہ اس تنازعے کو صرف کشمیر تک محدود کیا جائے۔ خفیہ طور پر مسلم آبادی کے تناسب کو ختم کرنے کا عمل بھی جاری رکھا جائے گا۔‘

میں نے راحت بٹل سے پوچھا کہ اس سارے عمل میں کیا پاکستان خاموش تماشائی بنا رہے گا تو انہوں نے جواب دیا کہ ان کے خیال میں جموں و کشمیر میں جو کچھ تبدیلی دیکھنے میں آ رہی ہے جس میں کسی حد تک پاکستان کی مرضی بھی شامل ہے ورنہ لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی، باہمی تعلقات میں نرمی اور پس پردہ ملاقاتوں کا سلسلہ شروع نہیں ہوا ہوتا۔ پھر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں انتخابی عمل کے بعد مزید کچھ تبدیلیاں رونما ہونے کا امکان ہے۔

یہ بھی ممکن ہے کہ دونوں کشمیر کے بیچ میں سرحدی بندشیں نرم کر کے تجارتی سرگرمیاں دوبارہ شروع کرنے کا منصوبہ شروع کیا جائے جس میں عالمی برادری ثالث کا کردار نبھا رہی ہے۔‘

پاکستان نے کشمیری مین سٹریم سے بات چیت کے اس عمل پر بظاہر کوئی بیان نہیں دیا جبکہ وزیر اعظم عمران خان نے کئی بار اس بات کو دہرایا ہے کہ 5 اگست 2019 کی پوزیشن بحال کرنے کے بعد ہی ہندوستان سے مذاکرات کیے جاسکتے ہیں۔ جنوب ایشیائی امور سے متعلق اکثر پالیسی ساز اداروں کا خیال ہے کہ ’مودی کے مین سٹریم کے ساتھ بات چیت کا عمل شروع کرنے میں پاکستان کی مرضی بھی شامل ہو سکتی ہے۔ کشمیر میں پہلے ہی آزادی پسند لیڈرشپ کو سیاسی منظر نامے سے ہٹا دیا گیا ہے اور خیال ہے کہ دونوں ملکوں نے مین سٹریم کو فوقیت دینے کی باہمی سوچ اپنائی ہے جس کی شروعات جنرل مشرف نے اپنے اقتدار کے دوران سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ سے پاکستان میں ملاقات سے کر دی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ