مودی کی کشمیری رہنماؤں سے ملاقات ختم، ’پانچ مطالبات پیش کیے گئے‘

بھارتی وزیراعظم مودی سے ملاقات کے لیے کشمیر اور ہندو اکثریتی خطے جموں سے تعلق رکھنے والے 14 سیاسی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا جنہیں اجلاس میں شرکت سے قبل کرونا ٹیسٹ کی منفی رپورٹ پیش کرنا بھی لازمی تھی۔

وزیر اعظم نریندر مودی کی نئی دہلی میں کشمیری رہنماؤں کےساتھ 5 اگست 2019 کے بعد پہلی ملاقات کے بعد گروپ فوٹو (تصویر: نریندر مودی ٹوئٹر اکاونٹ)

دہلی میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے کشمیر اور ہندو اکثریتی خطے جموں کے 14 سیاسی رہنماؤں کی ملاقات کے بعد آج پریس کانفرنس میں کانگریسی لیڈز غلام نبی آزاد کا کہنا تھا کہ ہم نے وزیر اعظم مودی کے سامنے پانچ بڑی ڈیمانڈز رکھیں۔

۔ کشمیر کو ریاست کا درجہ جلد ملنا چاہیے
۔ الیکشن جلد از جلد منعقد کروائے جائیں
۔ ڈومیسائل قوانین، زمینی ملکیت اور نوکریوں کے حوالے سے گارنٹی
۔ کشمیری پنڈتوں کو واپس لا کر کشمیر میں آباد کیا جائے
۔ سیاسی قیدیوں اور احتجاج کرنے والوں کو رہا کیا جائے

بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں سکیورٹی فورسز آج دہلی میں ہونے والے اس اجلاس کے تناظر میں ہائی الرٹ پر رہیں۔

بھارتی وزیراعظم مودی کے ساتھ ملاقات کے لیے وفاقی داخلہ سکریٹری نے کشمیر اور ہندو اکثریتی خطہ جموں سے تعلق رکھنے والے 14 سیاسی رہنماؤں کو مدعو کیا جنہیں اجلاس میں شرکت سے قبل کرونا (کورونا) ٹیسٹ کی منفی رپورٹ پیش کرنا بھی لازمی تھی۔

جن سیاسی رہنماؤں کو مدعو کیا گیا، ان میں نیشنل کانفرنس سے ڈاکٹر فاروق عبداللہ اور ان کے فرزند عمر عبداللہ، پی ڈی پی سے محبوبہ مفتی، کانگریس سے غلام نبی آزاد، تارا چند اور غلام احمد میر، پیپلز کانفرنس سے سجاد غنی لون اور مظفر حسین بیگ، اپنی پارٹی سے الطاف بخاری، بی جے پی سے رویندر رینہ، نرمل سنگھ اور کویندر گپتا، سی پی آئی (ایم) سے محمد یوسف تاریگامی اور نیشنل پنتھرس پارٹی سے پروفیسر بھیم سنگھ شامل تھے۔

مودی کی 5 اگست کے اقدام کے بعد پہلی بار کشمیری رہنماؤں سے بات چیت ہے۔

بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کی آئین میں خصوصی حیثیت ختم کرنے کے تقریباً دو سال بعد وزیر اعظم نریندر مودی آج (جمعرات کو) جموں وکشمیر کے اہم سیاسی رہنماؤں کے ساتھ پہلی بار آمنے سامنے بات کر رہے ہیں۔

مودی کی ہندو قوم پرست جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت نے پانچ اگست 2019 کو یک طرفہ اقدام کے تحت خطے کی نیم خودمختار حیثیت کو منسوخ کر دیا تھا جس کے بعد وادی میں سخت ترین پابندیاں اور لاک ڈاؤن نافذ کر دیا گیا تھا جب کہ بھارت نواز رہنماؤں، سابق وزرائے اعلیٰ سمیت ہزاروں افراد کو حراست میں لے لیا گیا تھا۔

بھارت نے کہا تھا کہ اگست 2019 کو ملک کی واحد مسلم اکثریتی ریاست کو وفاق کے زیر انتظام علاقوں میں تقسیم کرنے کا مقصد اس متنازع خطے کو ترقی دینا ہے جہاں نئی دہلی کے تسلط کے خلاف کئی دہائیوں سے مسلح تحریک جاری ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق  بھارت کے اس اقدام کو واپس لینے کے لیے کشمیر کی مرکزی سیاسی جماعتوں کے تشکیل دیے گئے اتحاد کے ترجمان اور سابق رکن پارلیمان محمد یوسف تاریگامی نے کہا ہے کہ بھارتی وزیراعظم کے ساتھ جمعرات کو ہونے والی ملاقات کا کوئی ایجنڈا فراہم نہیں کیا گیا۔

تاریگامی نے روئٹرز کو بتایا: ’ اس معاملے پر کچھ برف پگھلی ہے، اب کم از کم ہم اکٹھے بیٹھ کر اس مسٔلے پر بات تو کر رہے ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ اتحاد کے رہنما پانچ اگست سے قبل جموں و کشمیر کی آئینی حیثیت کی بحالی پر زور دیں گے۔

مودی کے دفتر نے روئٹرز کے سوالات کا فوری جواب نہیں دیا۔

بھارت کی جانب سے 2019 میں خطے کی ریاستی اور نیم خودمختاری حیثیت کے خاتمے پر مقامی سیاسی جماعتوں، جن میں بھارت نواز پارٹیز بھی شامل ہیں، نے سخت مخالفت کی تھی۔

جموں و کشمیر کے پورے خطے پر بھارت اور اس کے پڑوسی حریف پاکستان دونوں ہی دعویدار ہیں جب کہ دونوں جوہری طاقتیں اس کے کچھ حصوں کو کنٹرول کرتی ہیں۔ یہی نہیں یہ ممالک اس درینہ تنازع پر کئی جنگیں بھی لڑ چکے ہیں اور دو سال قبل یہ ایک اور جنگ کے دہانے پر پہنچ گئے تھے۔

ایک طرف تو بھارت کا دعویٰ ہے کہ وہ اس متنازع خطے میں ترقیاتی اور بنیادی ڈھانچے کے منصوبوں کو تیز کرنے اور عوامی سطح پر حکمرانی کو مستحکم کرنے کی کوشش کر رہا ہے تو دوسری جانب کشمیریوں کے مزاحمت پر قابو پانے کے لیے نئی دہلی نے بڑی تعداد میں اپنی فوجی بھی تعینات کیے ہوئے ہیں۔

وزارت قانون جموں و کشمیر کے کچھ انتخابی حلقوں کو دوبارہ منعظم کرنے کے لیے بھی کام کر رہی ہے جس کا مقصد اس علاقے میں نئے انتخابات کروانا ہے لیکن بات چیت کی نئی کوشش کے باوجود وادی لوگوں نے مودی حکومت کے ارادوں پر عدم اعتماد کا اظہار کیا ہے۔

جیسا کہ کشمیر کے مرکزی شہر سری نگر میں یونیورسٹی کے طالب علم نثار احمد کا کہنا ہے: ’مجھے اس ملاقات سے زیادہ توقع نہیں ہے۔ وہ اپنے اقدام کو واپس لینے والے نہیں ہیں۔‘

اگست 2019 میں اس اقدام کے بعد ممکنہ پرتشدد احتجاج کو روکنے کے لیے بھارت نے وادی کشمیر کو پوری طرح بند کردیا تھا جس میں نقل و حرکت اور ٹیلی کام پر سخت پابندیاں اور موبائل ٹیلیفون اور انٹرنیٹ رابطوں کو مکمل معطل کرنے جیسے اقدامات شامل تھے۔

بھارت نے جمعہ کے روز کہا ہے کہ وہ اگست 2019 کے بعد پہلی بار جموں و کشمیر میں تیز رفتار موبائل انٹرنیٹ سروس بحال کررہا ہے۔

مقامی انتظامیہ کے ترجمان روہت کنسل نے ایک ٹویٹ کے ذریعے اس پیش رفت کا اعلان کرتے ہوئے کہا: ’پورے جموں و کشمیر میں فور جی موبائل انٹرنیٹ سروس کو بحال کیا جارہا ہے۔‘

جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلی عمر عبداللہ نے انٹرنیٹ پر پابندی ختم کرنے کے بھارتی اقدام پر خوشی کا اظہار کیا۔

پاکستانی موقف

ادھر پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے صدر سردار مسعود خان نے بدھ کو ایک بیان میں کہا کہ جو لوگ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کے ساتھ بات چیت کے لیے دہلی گئے ہیں وہ کشمیری قوم کی نمائندگی نہیں کرتے اور یہ وہ لوگ ہیں جو کشمیری عوام کے حقوق اور آزادی پر نسل در نسل سمجھوتہ کرتے رہے ہیں۔

انہوں نے زور دے کر کہا کہ فاروق عبداللہ اور محبوبہ مفتی کا تعلق ان خاندانوں سے ہے جو جے ہند اور بندے مترم کے نعرے بڑے فخر سے لگاتے رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیراعظم مودی کی جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کے ساتھ میٹنگ سے قبل پاکستان نے بھارت کو خبردار کیا ہے کہ وہ کشمیر میں پانچ اگست 2019 کے فیصلوں کے بعد مزید ’غیر قانونی اقدام‘ سے اجتناب کرے۔

پاکستانی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری ایک بیان میں وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے کہا ہے کہ ’بھارت کو کشمیر میں پانچ اگست 2019 کے فیصلوں کے بعد مزید ’غیر قانونی اقدام‘ کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔‘

بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی طرف سے مدعو کردہ بھارتی جموں و کشمیر کے سیاسی رہنماؤں کی تمام جماعتوں کی اجلاس پر تبصرہ کرتے ہوئے صدر مسعود خان نے کہا کہ اگر مودی کشمیر پر مشاورتی عمل میں مخلص ہوتے تو وہ اس وقت دہلی کی تہاڑ جیل اور دیگر درجنوں حراستی مراکز میں حریت رہنماؤں کو کشمیری عوام کے حقوق کے لیے آواز اٹھانے کے جرم میں سڑنے نہ دیتے۔

ان قیاس آرائیوں کے بارے میں کہ شاید بھارتی وزیر اعظم نے 5 اگست سے پہلے کشمیر کا درجہ بحال کرنے کا ارادہ کیا تھا، اے جے کے صدر نے کہا کہ آرٹیکل 370 اور 35-اے دو ریاستوں کے درمیان ایک انتظام تھا جسے بھارت نے سبوتاژ کر دیا ہے اور اب کشمیر کو عملا یونین آف انڈیا کا انتظامی یونٹ بنا دیا گیا ہے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس صورت حال میں اگر کوئی معاہدہ طے پا جاتا ہے تو اس کی قانونی حیثیت کیا ہوگی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا