کشمیر: حریف جماعتوں کا مودی سرکار کے خلاف ’بے مثال‘ اتحاد

پیپلز الائنس نامی اس اتحاد کے ترجمان کا کہنا ہے کہ الائنس جموں و کشمیر کی چار اگست والی حیثیت کی بحالی کے لیے آئینی طور پر لڑے گا۔

بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے تین سابق وزرائے اعظم  محبوبہ مفتی، فاروق عبداللہ اور ان کے بیٹے عمر عبداللہ (اے ایف پی(

بھارت کے زیرانتظام کشمیر کے سینیئر ترین سیاسی رہنماؤں نے اکٹھے ہو کر نریندرمودی کی مرکزی حکومت کے خلاف محاذ قائم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایک سال پہلے علاقے کو اس کی خصوصی حیثیت اور خود مختاری سے محروم کرنے کے فیصلے کی مذمت کی ہے۔

 اجلاس میں سابق ریاست جموں و کشمیر کی ان تمام علاقائی جماعتوں نے شرکت کی جو اب تک مقامی سطح پرغلبے کے لیے آپس میں انتخابات میں تلخی کے ساتھ لڑتی رہی ہیں۔

جمعرات کو ہونے والا یہ اجلاس جس کی پہلے کوئی مثال نہیں ملتی بھارت کے زیرانتظام کشمیر کی سابق وزیراعلیٰ اور پیپلزڈیموکریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کی صدر محبوبہ مفتی کی ایک سال سے زیادہ عرصے کے بعد رہائی پر ممکن ہو سکا۔

بالآخر منگل کو ان کی گھر پر نظربندی ختم کر دی گئی۔ نیشنل کانفرنس پارٹی کے صدر فاروق عبداللہ کی میزبانی میں ہونے والے اجلاس میں سیاسی جماعتوں نے اتفاق کیا کشمیر کی وہ حیثیت بحال کروانے کے لیے مل کر کام کیا جائے گا جو اسے ختم  کرنے کے دہلی کے پانچ اگست، 2019 سے اقدام سے پہلے تھی۔

عبداللہ سابقہ ریاست کے تین بار وزیراعلیٰ رہ چکے ہیں اور اس وقت رکن پارلیمنٹ ہے۔ انہوں نے رپورٹروں کو بتایا کہ سیاسی جماعتیں 'پیپلز الائنس' کے نام سے گروپ قائم کریں گی۔ 'ہماری لڑائی آئینی ہوگی۔ ہم وہ بحال کروانے کے لیے جدوجہد کریں گے جو جموں و کشمیر اور لداخ سے چھین لیا گیا۔ ہمارا اجلاس دوبارہ ہوگا۔'

نیشنل کانفرنس پارٹی کے سینیئر رکن ناصرسوگامی نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا: 'ہم اس کے لیے لڑنے جا رہے ہیں جو بجا طور پر ہمارا تھا اور جس کی ہمارا آئین ضمانت دیتا ہے اور جو ہم سے لے لیا گیا ہے۔'

پی ڈی پی کے ترجمان نے کہا کہ سب پیپلزالائنس کے نام پر متفق ہو چکے ہیں۔ 'الائنس جموں و کشمیر کی چار اگست والی حیثیت کی بحالی کے لیے آئینی طور پر لڑے گا۔'

کشمیر کے ساتھ کیا ہوا؟

آخری مرتبہ کشمیر کی علاقائی جماعتوں کا اجلاس چار اگست، 2019 کو ہوا جب وہ نیم فوجی فورسز کی بڑی تعداد پر آمد کے پیش نظر چوکنی ہو گئی تھیں۔ ان فورسز کو مرکزی حکومت نے بھیجا تھا۔ حکومت نے سیاحوں کو علاقہ چھوڑنے کے لیے بھی کہا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

تب اس توقع میں کہ کیا ہوگا علاقائی جماعتوں نے گپکار ڈیکلریشن پر دستخط کر دیے اور اعلان کیا کہ وہ مشاورت کے بغیر کشمیر کی حیثیت میں تبدیلی کی کسی بھی کوشش کی مخالف ہیں۔

اگلے روز مودی سرکار نے بھارتی آئین کے دو آرٹیکلز، آرٹیکل 370 اور آرٹیکل 35 اے منسوخ کر دیے۔ ان آرٹیکلز کے تحت کشمیر کو اپنے لیے ایک مختصر آئین بنانے اور ریاست سے باہر کے لوگوں کو وہاں زمین خریدنے اور اس کا مالک بننے سے روکنے کا حق حاصل تھا۔

یہ مانا جاتا ہے کہ اس خطے میں دنیا کی سب سے زیادہ تعداد میں فوج موجود ہے لیکن پچھلے سال پانچ اگست کے بعد پابندیاں مزید سخت ہو گئیں۔ نتیجتاً کئی ماہ تک انٹرنیٹ سروس بند رکھی گئی اور لوگوں کی نقل وحرکت کو کنٹرول کیا گیا۔

موجودہ صورت حال میں اس سال کے شروع میں بہتری آنی شروع ہوئی لیکن کرونا وبا نے کشمیریوں کو ایک بار پھر لاک ڈاؤن کی جانب دھکیل دیا۔ گذشتہ اگست میں مودی سرکار نے ریاست کو دو یونین علاقوں میں تقسیم کر دیا۔ یہ ایسا اقدام ہے جس کے بارے میں ماہرین کہتے ہیں کہ اس سے مقامی حکومتی ڈھانچہ کمزور ہوا اور مرکز کو اختیار مل گیا ہے کہ وہ گورنر کے ذریعے علاقے کو مستقل طور پر براہ راست کنٹرول کرے۔

کشمیر کی خصوصی حیثیت کی تنسیخی حکمران جماعت بی جے پی (بھارتیہ جنتا پارٹی) کے ایجنڈے کا کئی سال سے حصہ رہی ہے۔ اسے 2014 اور 2019 کے انتخابات میں انتخابی منشور میں شامل کیا گیا، بی جی پی نے ان انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کی۔

جموں و کشمیر کو خصوصی حیثیت کیوں حاصل تھی؟

کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان 1947 اور بھارت اور چین کے درمیان 1962 سے متنازع چلا آ رہا ہے۔ وادی کے ہندو بادشاہ، مہاراجہ ہری سنگھ نے تقسیم کے بعد بھارت میں شمولیت اختیار کی جس کے بعد ریاست ان ملکوں کے درمیان تین جنگوں کا مرکز رہی ہے۔

بعد ازاں 1972 میں لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے ذریعے کشمیر کی ریاست پاکستان اور بھارت کے درمیان تقسیم ہو گئی۔

وادی کے اندر لڑائیاں جاری ہیں۔ بھارت سے 'آزادی' کے مطالبات کیے جا رہے ہیں۔ بھارت نے پاکستان پر الزام لگایا ہے کہ وہ تقسیم کو ہوا دے رہا ہے جب کہ وہ لوگ جو کشمیر کی آزادی کے حق میں کہتے ہیں الحاق کے دوران معاملے پر رائے شماری کا وعدہ کیا گیا تھا۔

ماہرین کہتے ہیں کہ علاقے کی خصوصی حیثیت سمیت آرٹیکل 370 کا تعلق کشمیر کے لوگوں میں شناخت کے احساس کے ساتھ بھی تھا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا