طالبان اقتدار میں آ گئے تو پاکستان پر کیا اثر ہو گا؟

اگر طالبان نے کابل پر قبضہ کر لیا تو اس کا نقصان پاکستان کو ہو گا اور اسے شدید بین الاقوامی تنقید کا سامنا کرنا پڑے گا۔

لغمان صوبے میں افغان سکیورٹی فورسز کا گشت (اے ایف پی  فائل)

افغانستان میں امریکی فوج کے انخلا کے اعلان کے بعد کی غیر واضح اور غیریقینی صورت حال نے پاکستان کو تشویش سے دوچار کر دیا ہے۔

وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کہہ چکے ہیں کہ خانہ جنگی کی صورت میں افغانستان زیادہ عدم استحکام کا شکار ہوگا، جس سے پاکستان متاثر ہوگا۔

افغانستان میں عدم استحکام یا طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کی صورت میں پاکستان کو کون سے مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے؟

پاکستان سمیت کوئی ملک بھی افغانستان میں نئی خانہ جنگی کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ وزیر اعظم عمران خان اور فوجی قیادت کے اب تک کے بیانات سے واضح ہے کہ وہ ہمسایہ ملک کی صورت حال کی وجہ سے مزید متاثر نہیں ہونا چاہتا۔ ایسے میں دو بڑے امکانات ہیں جو پاکستان کے لیے غور طلب ہو سکتے ہیں۔ نمبر ایک، کابل میں اشرف غنی حکومت کا دوام یا طالبان تحریک کی دوبارہ اقتدار میں واپسی۔

امریکی فوج کی واپسی کے بعد سے اشرف غنی کی حکومت سخت دباؤ میں دکھائی دے رہی ہے۔ طالبان نے عسکری میدان میں پیش قدمی کے دعوے کیے ہیں جبکہ افغان حکام ان کی پسپائی کے بیانات جاری کر رہے ہیں۔ افغان حکومت کب تک طالبان کو روکے رکھ سکتی ہے، اس بارے میں کچھ کہنا مشکل ہے۔ 

پشاور میں افغان امور کو کور کرنے والے صحافی رفعت اللہ اورکزئی کہتے ہیں کہ افغان صدر ڈاکٹر اشرف غنی اور ڈاکٹر عبد اللہ کے حالیہ دورہ امریکہ کے دوران امن کے حوالے سے کوئی ٹھوس بات سامنے نہ آنے سے بظاہر افغانستان میں پھر سے ’گریٹ گیم‘ کا نظریہ واضح ہو رہا ہے۔ وہ کہتے ہیں: ’دوحہ امن معاہدے سے فائدہ اٹھانے والے صرف امریکہ اور طالبان ہیں، اس میں افغان عوام کے لیے کچھ نہیں تھا۔‘

البتہ افغان حکومت کی جانب سے پاکستان کے خلاف سخت بیانات کے اجرا میں تیزی دیکھنے میں آئی ہے، جس سے تعلقات سرکاری سطح پر پھر سے کشیدہ بتائے جاتے ہیں۔ افغان حکومت کے میڈیا اور اطلاعات کے مرکز کے ڈائریکٹر دوا خان مینہ پال نے ایک حالیہ بیان میں پاکستان سے طالبان کے ملک میں موجود اڈوں اور حمایت کے خاتمے کا مطالبہ کیا ہے۔ انہوں نے بظاہر صدر اشرف غنی کے 14 مئی کے جرمن میگزین کو دیئے گئے انٹرویو میں لگائے جانے والے الزامات کی تائید کی کہ افغان طالبان کو پاکستان سے مالی اور دیگر امداد بدستور مل رہی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر وزیر داخلہ شیخ رشید احمد نے سلیم صافی کو دیئے گئے ٹیلی ویژن انٹرویو میں اعتراف کیا کہ افغان حکومت کے تقریباً تمام دعوے سچ ہیں کہ پاکستان طالبان کی حمایت کرتا ہے۔ انہوں نے ’جرگہ‘ پروگرام کو ایک انٹرویو میں بتایا کہ طالبان رہنماؤں کے اہل خانہ مختلف پاکستانی شہروں میں ہیں اور افغان جنگ میں ہلاک ہونے والے افراد کی لاشوں اور زخمیوں کو پاکستان منتقل کیا جا رہا ہے۔ ’بات یہ ہے کہ طالبان کے خاندان اور دیگر یہاں (پاکستان میں) رہتے ہیں۔ وہ بارہ کہو اور ترنول اور دیگر شہروں میں رہتے ہیں۔‘

تاہم اب وزیر داخلہ کی تردید کے باوجود کہ ان کی بات کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا، اس طرح کی باتیں اشرف غنی حکومت کے ساتھ تعلقات کو مزید کشیدہ کریں گی اور کابل پر عسکری دباؤ اس تلخی کو مزید ہوا دے گا۔

سینیئر صحافی سمیع یوسفزئی کہتے ہیں کہ کابل کے سقوط کی صورت میں انگلیاں پاکستان کی ہی جانب اٹھیں گی۔ ’یہ پاکستان کی کامیابی نہیں ہو گی۔‘

اطلاعات کے مطابق افغان طالبان امریکی انخلا کے مکمل ہوتے ہی ایک بڑی کارروائی کی تیاریاں کر رہے ہیں، تاہم مبصرین کے مطابق 650 امریکیوں کی کابل میں موجودگی کی وجہ سے شاید ان کے لیے کابل دوبارہ فتح کرنا اتنا آسان نہ ہو، لیکن اگر وہ ایسا کسی صورت میں کر بھی لیتے ہیں تو پاکستان یقیناً اس صورت میں بھی شدید تنقید کا نشانہ بن سکتا ہے۔

پاکستان کے لیے ہر صورت میں تنقید ہی لکھی ہے۔ جون میں امریکی کانگریشنل ریسرچ کی ایک رپورٹ میں پاکستان کو مزید برے رنگ میں دکھانے کی کوشش کی گئی ہے۔ ’افغانستان: بیک گراؤنڈ اینڈ یو ایس پالیسی‘ کے نام سے اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان ایک مضبوط افغانستان کی نسبت کمزور اور غیرمستحکم ملک کو ترجیح دے گا۔ ’پاکستانی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ بھارت کے خوف سے ابھی بھی طالبان کو قابل اعتبار اور بھارت مخالف عنصر کے طور پر دیکھتی ہے۔‘

کابل پر طالبان کے قبضے کی صورت میں پاکستان کو شدید عالمی تنقید کے علاوہ کن مسائل کا سامنا ہو سکتا ہے؟

شدت پسندی میں اضافہ؟

ایک شدت پسند گروپ کے اقتدار میں آنے سے دیگر چھوٹے بڑے عسکریت پسند گروپ بھی توانائی حاصل کرتے ہیں۔ ایسے میں پاکستانی طالبان دوبارہ متحرک ہوسکتے ہیں لیکن اس کا انحصار افغان طالبان کی ان کی جانب رویے پر ہو گا۔

90 کی دہائی میں جب طالبان پہلی مرتبہ اقتدار میں آئے تھے تو پاکستانی طالبان کا وجود نہیں تھا لیکن اس کے بعد طالبان کے نظریات سے متاثر ہو کر سرحد پار اس نے جنم لیا تھا۔ افغان طالبان نہ پاکستانی طالبان کے بارے میں بات کرنا پسند کرتے ہیں اور نہ کوئی بیان جاری کرتے ہیں۔ ان کے لیے وہ ایسے ہیں جیسے وہ وجود ہی نہیں رکھتے۔

دوحہ میں طالبان ترجمان سہیل شاہین سے پاکستانی طالبان کے بارے میں میرے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ ان کے زیر اثر علاقوں میں نہیں۔ ’وہ افغان حکومت کے علاقوں میں ہیں لہٰذا ان کے بارے میں کابل سے پوچھا جائے۔‘

افغان طالبان نے امریکیوں سے معاہدے میں وعدہ کیا ہے کہ وہ افغان سرزمین کو کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دیں گے۔ ایسے میں ٹی ٹی پی کے خاموش رہنے کے امکانات زیادہ ہیں لیکن اگر ٹی ٹی پی افغانستان کی سرزمین کو استعمال کرکے پاکستان میں دوبارہ متحرک ہوتی ہے تو اسلام آباد یقیناً طالبان حکومت سے ان کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کرے گا۔ ایسے میں افغان طالبان کی جانب سے پاکستانی شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کا امکان حد درجے کم ہے۔ وہ دباؤ اور بات چیت کے ذریعے انہیں خاموش رہنے پر شاید آمادہ کرلے۔

تاہم افغانستان میں خانہ جنگی میں طوالت کی وجہ سے طالبان مخالف دیگر دھڑے پاکستان کو نشانہ بنا سکتے ہیں۔ 80 کی دہائی میں اس کی مثال ’مجاہدین‘ کے لیے پاکستانی مدد کے تناظر میں سوویت یونین کی جانب سے پشاور اور دیگر مقامات میں بم دھماکے تقریباً روزانہ کا معمول تھے۔

پاکستان نے افغان سرحد پر باڑ کا کام تقریباً مکمل کر لیا ہے لیکن کیا وہ سرحد پار سے ایسی کارروائیاں روک سکے گا، اس کا ابھی تجربہ ہونا باقی ہے۔  

پناہ گزینوں کی نئی لہر

اسلام آباد میں حکومت کا یہی خیال ہے کہ افغانستان میں لڑائی میں شدت اور عدم استحکام سے افغان پناہ گزینوں کی ایک نئی لہر آ سکتی ہے۔ پاکستان پہلے ہی کہتا ہے کہ 15 سے 20 لاکھ پناہ گزینوں کا بوجھ وہ برداشت کر رہا ہے لیکن مزید نہیں کر سکے گا۔ اس بارے میں اس نے وضاحت نہیں دی ہے کہ آیا انہیں پاکستان میں داخل ہونے کی اجازت دے گا یا نہیں لیکن اگر بین الاقوامی دباؤ بڑھا اور انسانی صورت حال خراب ہوئی تو شاید اسے سرحد کھولنی پڑے۔

پاکستان کی معاشی صورت حال ایسی نہیں کہ وہ مزید پناہ گزینوں کو برداشت کرے۔

وسط ایشیا تک رسائی

پاکستان نے حالیہ کچھ عرصے سے اس خطے کے لیے اپنی پالیسی میں تبدیلی جیو سٹریٹیجک کی جگہ جیو اکنامک کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ وسطی ایشیا کی منڈیوں تک رسائی چاہتا ہے لیکن افغانستان میں افراتفری اس کے یہ اہداف مشکل بنا دے گا۔ سامان کی آمدورفت ممکن نہیں رہے گی اور علاقائی تجارت سے پاکستان فائدہ نہیں اٹھاسکے گا۔

پاکستانی پالیسی سازوں کے لیے غالباً بڑے سوال یہی ہیں کہ ان تمام منفی اثرات سے وہ اپنے آپ کو کیسے محفوظ رکھ سکتا ہے۔ وہ ایسا کیا کرسکتا ہے کہ جس سے سانپ بھی مر جائے اور لاٹھی بھی نہ ٹوٹے۔  

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ