’پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ جون نہیں دسمبر میں مکمل ہوگی‘

عسکری ذرائع کا کہنا ہے خیبر پختونخوا میں افغانستان سے متصل سرحد پر باڑ لگانے کا کام 98 فیصد تک مکمل ہوگیا ہے، اور باقی باڑ پر کام اس سال کے آخر میں ختم ہو جائے گا۔

جنوبی وزیرستان میں افغان سرحد پر قائم باڑ پر ایک پاکستانی فوجی (اے ایف پی فائل)

پاکستان میں اعلیٰ عسکری حکام کا کہنا ہے کہ پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ، جس پر پانچ سال سے کام جاری ہے، رواں برس جون کی بجائے دسمبر میں مکمل ہو گی۔

اس سے قبل وزیر داخلہ شیخ رشید نے بیان دیا تھا کہ سرحد پر باڑ رواں ماہ 30 جون کو مکمل ہوجائے گی مگر انڈپینڈنٹ اردو نے اس حوالے سے معلومات حاصل کیں تو سکیورٹی ذرائع نے بتایا کہ دشوار گزار علاقہ اور بلند و بالا پہاڑ ہونے کی وجہ سے باڑ کا کام جون میں مکمل نہیں ہو سکتا اور اس پر دسمبر تک کا وقت لگے گا۔

نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر عسکری ذرائع نے بتایا کہ خیبر پختونخوا سے متصل قریباً 1229 کلومیٹر لمبی پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ تقریباً 98 فیصد مکمل ہے، لیکن چترال کے بلند و بالا دشوار ترین پہاڑ اور سرحدی گلیشئرز کی وجہ سے وہاں باڑ لگانا بےحد مشکل ہے۔

انہوں نے کہا کہ وہاں انسانی آمدورفت بھی نہیں ہے لیکن پھر بھی اس دو فیصد حصے کو مخفوظ بنانے کے لیے کوئی اور مناسب حل نکالا جائے گا۔

انہوں نے بتایا کہ چترال کے ساتھ افغان سرحد کی لمبائی 493 کلومیٹر ہے لیکن اس میں سے 471 کلومیٹر سرحد انتہائی بلندی پر واقع اور گلیشیئروں پر مبنی علاقوں سے گزرتی ہے۔

ایک مقام پر ضلع دیر کے قریب اس کی سطح سمندر سے بلندی 13 ہزار فٹ اور دوسرے مقام کی بلندی 10ہزار 460 فٹ ہے۔ باجوڑ کے ساتھ سرحد کی لمبائی 50 کلومیٹر، مہمند کے ساتھ 69 کلومیٹر، خیبر کے ساتھ 111 کلومیٹر، کرم کے ساتھ 191 کلومیٹر، شمالی وزیر ستان کے ساتھ 183 اور جنوبی وزیر ستان کے ساتھ 94 کلومیٹر ہے۔

انہوں نے مزید بتایا: ’اگر مجموعی طور پہ باڑ کے حوالے سے پوچھا جا رہا ہے تو میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ مجموعی طور پر 96 فیصد باڑ اور قلعوں کا کام مکمل ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ خیر پختونخوا میں کچھ گاؤں ایسے ہیں کہ آدھا گاؤں پاکستان اور آدھا افغانستان میں آتا ہے اور اس طرح بلوچستان میں کچھ علاقے ایسے ہیں جو حساس ہیں اور وہاں گاؤں ایسے بنے ہیں جن کا صحن پاکستان میں اور کھڑکی افغانستان میں کھلتی ہے تو ایسےمعاملوں کو ذمہ داری سے حل کرنا ہے تاکہ باڑ مکمل ہو جائے۔  

تو پھر گاؤں کے درمیان دیوار کیسے کھینچی؟ اس سوال کے جواب میں عسکری ذرائع نے بتایا کہ اہل علاقہ کو انتخاب کرنے کا گہا گیا کہ باڑ لگانی ہے اور ان کی مرضی ہے کہ پاکستان میں مکان قائم رکھنا چاہتے ہیں یا باڑ کے اس طرف جانا چاہتے ہیں۔ تو کچھ نے پاکستان اور کچھ نے افغانستان کا انتخاب کیا، اور یوں پھر باڑ لگا دی گئی۔

انہوں نے مزید بتایا کہ خیبر پختونخوا میں ایسا بھی ہوا کہ سرحد پار دہشت گردوں نے لگائی گئی باڑ کاٹنے کی بھی کوشش کی جس کے نتیجے میں دونوں اطراف سے فائرنگ ہوئی اور ایف سی نے یہ کوشش ناکام بنا دی۔

افغانستان کے ساتھ اس وقت تین بارڈر پوائنٹس تجارت کے لیے فعال ہیں جس میں طورخم، چمن اور نیا تعمیر ہونے والا غلام خان کراسنگ پوائنٹ شامل ہیں۔ وزارت داخلہ کے مطابق ان تین بارڈر ٹرمینلزکے ذریعے پاکستان افغانستان درآمد برآمد کی جا سکتی ہے۔ غلام خان ٹرمینل کے حوالے سے افغانستان امور پر پاکستان کے خصوصی نمائندے صادق خان نے ٹویٹ بھی کی تھی۔

ان سرحدوں کے سامنے افغانستان کے کون سے علاقے ہیں؟

سکیورٹی حکام نے اس سوال کے جواب میں بتایا کہ ’چترال، دیر اور باجوڑ کے سامنے تحریک طالبان پاکستان کے حزب الاحرار، سواتی گروپ اور باجوڑی گروپ کے دہشت گرد افغانستان میں پناہ گزین ہیں جو اکثر سنائپر حملے کرتے ہیں۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’شمالی وزیرستان کے سامنے افغانستان کے صوبہ خوست میں ٹی ٹی پی کا اتحادی حافظ گل بہادر گروپ پناہ گزین ہے جس کے دہشت گرد کارروانیوں پر چھپ کر، دخل دراندازی اور حملے کرتے رہتے ہیں۔ جنوبی وزیرستان کے سامنے افغانستان کے صوبے پکتیکا کے ضلع برمل میں ٹی ٹی پی مرکزی پناہ گزین موجود ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ پاکستانی فوج کو باڑ لگانے میں ’سب سے زیادہ جنوبی وزیرستان کے علاقے شوال علاقہ میں مزاحمت کا سامنا رہا اور سب سے زیادہ اس علاقہ میں باڑ لگاتے ہوئے جوانوں کی جانیں قربان ہوئیں۔‘

ذرائع نے مزید بتایا شدت پسندوں نے ’شوال میں منگڑیتی کے سامنے تین چار کلومیٹر افغانستان کے اندر بھاری مشین گنیں لگا رکھی تھیں جن کو خاموش کرانے میں مہینوں لگے۔ ‏یہی وجہ ہے کہ جنوبی وزیرستان میں ایک ہی رات میں35 چوکیوں پہ حملہ کیا گیا اور دو دن جھڑپ جاری رہی۔ اس علاقے میں اتنی مزاحمت کا سامنا رہا کہ دو سال باڑ پہ کام رکا رہا یہی وجہ ہے کہ باڑ دسمبر 2019 میں مکمل نہیں ہو سکی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان کے بقول بلوچستان کے ضلع ژوب، ضلع قلع سیف اللہ اور چمن کی سرحدی چوکیوں پہ بھی سنائپر اور بھاری گنوں سے حملوں میں کئی فوجی جان سے گئے ہیں۔

طوالت کتنی ہے اور پوسٹیں کتنی بنائی گئیں؟

سکیورٹی حکام نے مزید بتایا کہ پاکستان افغانستان سرحد کی مجموعی لمبائی 2611 کلومیٹر ہے جس میں  1229 کلومیٹر خیبر پختونخوا میں ہے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ صرف باڑ نہیں لگائی گئی بلکہ قلع نما پوسٹیں بھی بنائی گئی ہیں تاکہ شدت پسندوں پر نظر رکھی جا سکے۔

سرکاری اعداد و شمار کے مطابق سرحد پر قلع نما پوسٹوں کی تعداد 843 ہے، جن میں سے 443 خیبرپختونخوا میں ہیں۔ ان میں سے 35 پوسٹیں مالاکنڈ، 54 ضلع باجوڑ، 58 ضلع مہمند، 93 خیبر، 109کرم، 64 شمالی وزیرستان اور 30 جنوبی وزیرستان میں ہیں۔

 

ایک بیان میں ڈی جی آئی ایس پی آر کہہ چکے ہیں کہ آہنی باڑ سے پاکستان اور افغانستان کے پرامن عوام کو فائدہ ہو گا اور سرحد پر دہشت گردوں کو روکا جا سکے گا۔

پوری باڑ پر دستے تعینات کرنا پڑیں گے

جنرل امجد شعیب ریٹائرڈ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’میں پاکستان افغانستان کے سرحدی علاقوں میں خدمات سرانجام دے چکا ہوں اس لیے اس علاقے کو سمجھتا ہوں۔ سرحد پر لگائی جانے والی باڑ جسمانی طور پر تو دہشت گردوں کو تو روک سکتی ہے لیکن مارٹر یا سنائپر کے حملے پھر بھی ہو سکتے ہیں جس کے لیے مکمل مانیٹرنگ کے لیے ہر چند سو کے فاصلے پر قلعے اور چیک پوسٹیں بنائی گئی ہیں۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’چونکہ یہ کنکریٹ کی دیوار نہیں کہ مکمل سکیورٹی ہو اس لیے پاکستان فوج کو تمام باڑ پر دستے تعینات رکھنے ہوں گے۔‘
چترال کے بلند دشوار گزار افغانستان سے متصل علاقے کے متعلق جنرل شعیب نے کہا کہ ’جو علاقہ باڑ لگانے کے لیے مشکل ہوتا ہے وہ دشمن کے لیے بھی اتنا ہی مشکل ہوتا ہے، اور یقیناً افواج پاکستان اس کا بھی حل ضرور سوچا ہو گا۔‘

افغان اس باڑ کے بارے میں کیا کہتے ہیں؟

افغان حکام اس باڑ کی مخالفت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس کے ذریعے پاکستان افغانستان کے ساتھ ڈیورنڈ لائن سرحد کو مستحکم کرنا چاہتا ہے حالانکہ ان کے مطابق یہ سرحد متنازع ہے۔ 

دو ہفتے قبل پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے افغان ٹیلی ویژن چینل ’طلوع‘ سے بات کرتے ہوئے کہا تھا کہ باڑ لگانے کا کام بڑی حد تک مکمل ہو چکا ہے، جس کا جواب دیتے ہوئے افغانستان کے شعبہ اطلاعات کے ڈائریکٹر دواخان مینہ پال نے شاہ محمود قریشی کو مخاطب کر کے لکھا: ’ہم افغانستان اور پاکستان میں رہنے والے افغان ڈیورنڈ لائن کو کبھی تسلیم نہیں کریں گے۔‘

افغان حکومت کے ترجمان احمد شکیب مستغنی نے 2017 میں ایک اخباری کانفرنس میں کہا تھا کہ ’ہم نے واضح کیا ہے کہ افغان حکومت کی مرضی کے بغیر ڈیورنڈ لائن پر کسی بھی قسم کی سرگرمیاں غیر موثر، غیر عملی اور ناممکن ہوں گی۔ انہوں نے اس بات کو بھی مسترد کیا کہ اس باڑ کے ذریعے سرحد کے آرپار غیر قانونی نقل و حرکت کو روکنے میں مدد ملے گی۔  

باڑ کیسے لگائی گئی ہے؟

پاکستان افغانستان سرحد پر باڑ ایک خاص ڈیزائن سے لگائی گئی ہے جو دو رویہ ہے۔ پاکستان کی جانب باڑ کی اونچائی 11 فٹ جبکہ افغانستان کی جانب باڑ کی اونچائی 13 فٹ رکھی گئی ہے۔ دونوں کے بیچ چھ فٹ کا فاصلہ رکھا گیا ہے جسے خاردار تاروں سے بھر دیا گیا ہے۔

سکیورٹی حکام نے بتایا کہ بظاہر تو یہ باڑ تاروں سے لگائی گئی ہے لیکن اس کی تعمیر میں 2017 سے اب تک سینکڑوں جوانوں کی جان گئی ہے جن پر باڑ لگانے کے دوران سرحد پار سے فائرنگ کی گئی۔

ان کا کہنا تھا کہ مئی میں باڑ لگانے کے دوران ایف سی کے جوانوں پر بھی حملہ کیا گیا تھا جس کے نتیجے میں جانیں گئیں تھیں۔ انہوں نے کہا: ’یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ پاکستان نے جوانوں کے خون سے اس باڑ کو لگایا ہے۔‘

جون 2016 میں سرحد پر ہونے والی فائرنگ کے بعد پاکستان نے تخفظ کو یقینی بنانے کے لیے افغانستان کے ساتھ طویل سرحد پر باڑ لگانے کا فیصلہ کیا تھا۔ منصوبے کے لیے ابتدائی طور پر 50 کروڑ ڈالر مختص کیے گئے تھے۔

ابتدائی طور پر باڑ مکمل کرنے کے لیے دسمبر 2019 کی تاریخ مقرر کی گئی تھی لیکن افغان سرحد کی جانب سے دہشت گردی کے واقعات اور زمینی وجوہات کے باعث منصوبہ طوالت کا شکار ہوگیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان