براعظم افریقہ کے شمال مشرق میں واقع ملک ایتھوپیا میں جنگ کے شکار علاقے ٹیگرے میں لوگوں کی وسیع پیمانے پر ہلاکتوں کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں۔
جنگ زدہ علاقے سے مقامی عہدیداروں کے دستخط شدہ اور سرکاری مہر لگے خطوط اور مدد کے لیے درخواستیں موصول ہو رہی ہیں، جن میں بتایا گیا ہے کہ لوگ یہاں ’پتوں کی طرح گر رہے ہیں۔‘
یہ درخواستیں خطے کے دور دراز کے علاقے سے آئی ہیں جہاں سے اس سے قبل ہزاروں افراد کی اپنی جان بچانے کے لیے فرار ہونے کی افواہیں سامنے آ رہی تھیں۔
لیکن ایک مقامی اہلکار نے اپنے ایک خط میں مدد کی فوری اپیل کرتے ہوئے کہا کہ یہاں کم از کم 125 افراد پہلے ہی بھوک سے مر چکے ہیں۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کو 16 جون کو لکھا گیا ایک خط موصول ہوا ہے جس میں سرکاری افواج اور خطے کی آزادی کے لیے لڑنے والے باغیوں کے درمیان جنگ میں پھنسے ہوئے لاکھوں بے یارومددگار افراد کی حالت زار بیان کی گئی ہے۔
جنگ کے باعث یہ خطہ کئی ماہ سے باقی دنیا سے کٹا ہوا ہے اور عوام کی صورت حال کا کسی کو علم نہیں تھا۔ ٹیگرے کے ایک مقامی صحت کے عہدیدار نے بھی اس کی تصدیق کی ہے۔
ایریٹریا اور ٹیگرے کے سابق رہنما ایتھوپیا کی افواج کی حمایت کر رہے ہیں۔
امریکہ نے خبردار کیا ہے کہ دہائی کے بدترین قحط سالی کے شکار اس خطے کے نو لاکھ افراد کو بھوک کے بحران کا سامنا ہے جبکہ ٹائیگرے کے وسیع و عریض علاقوں کے بارے میں بہت کم معلومات میسر ہیں، جو نومبر کے بعد سے ہر طرف سے جنگجوؤں کے کنٹرول میں ہیں۔
بند راستوں اور جنگ کے باعث امدادی اداروں کو اس علاقے تک رسائی بھی حاصل نہیں ہے۔
رواں ہفتے ان علاقوں کے اس وقت کھلنے کی امید پیدا ہوئی تھی، جب ایتھوپیا کی حکومت نے جنگجوؤں کے علاقائی دارالحکومت میں دوبارہ داخلے اور سرکاری فوجیوں کے فرار کے بعد کے بعد فوری جنگ بندی کا اعلان کیا تھا۔
منگل کو امریکی امدادی ایجنسی کے ایک عہدیدار نے کانگریس کے ارکان کو بتایا کہ کچھ امدادی گروپ دور دراز علاقوں تک پہنچنے کے بعد فائر بندی کی صورت حال کا جائزہ لیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ آیا اس تنازعے میں شامل پڑوسی ملک ایریٹریا کی فوج سمیت دیگر فریقین، جن پر جنگ کے دوران بدترین مظالم کے الزامات ہیں، اس فائر بندی کا احترام کریں گے یا نہیں۔ ٹیگرے کے ترجمان نے اسے ’مذاق‘ قرار دے کر مسترد کردیا۔ ساتھ ہی انہوں نے اس علاقے کی مکمل آزادی کے عزم بھی اظہار کیا۔
اس سے قبل بھی ان علاقوں سے مدد کے لیے خطوط لکھے گئے تھے۔
خطے میں غذائی قلت سے 150 افراد کی اموات کی اطلاع کے بعد اقوام متحدہ کے انسانی ہمدردی کے ادارے کے سربراہ نے اپریل میں سلامتی کونسل کے ایک بند دروازے میں ہونے والے اجلاس کو صورت حال سے آگاہ کیا تھا، جس پر ایتھوپیا کی حکومت کی طرف شدید ردعمل سامنے آیا تھا۔
صحت کے ایک عہدیدار کے مطابق نئے بھیجے گئے خطوط میں مزید ابتر صورت حال اور بھیانک اعداد و شمار پیش کیے گئے ہیں، جن کے مطابق کم از کم 440 افراد ہلاک اور 558 جنسی تشدد کا نشانہ بن چکے ہیں۔ 5000 سے زیادہ مکانات لوٹ لیے گئے ہیں۔ ہزاروں مویشیوں کو ہتھیا لیا گیا ہے جب کہ ٹنوں وزنی فصلیں جلا دی گئیں۔
انہوں نے لکھا کہ ’علاقے میں صاف پانی تک رسائی نہیں ہے۔ بجلی، فون، مواصلات، بینکاری، صحت کی سہولیات اور انسانی امداد تک رسائی کو مسدود کردیا گیا ہے۔ لوگ اپنی جانیں بچانے کے لیے باہر نکلنے سے بھی قاصر ہیں کیونکہ ایریٹریا کے فوجیوں نے ہمیں مکمل محاصرے میں لے رکھا ہے۔ خلاف وزری کرنے والوں کو اذیت اور موت کی سزا دی جاتی ہے۔‘
انہوں نے متنبہ کیا ہے کہ 2021 اور 2022 میں امداد کے بغیر صورت حال مزید تباہ کن ثابت ہوگی۔