ہمارا کلچر ہمارا میاں ہے!

جب تک ہماری سوچ تبدیل نہیں ہوتی تب تک ہمارا کلچر ہمارا میاں ہی ہے۔ اب برداشت کریں یا پاس کریں، یہ آپ کی مرضی۔

ہمارےمعاشرے میں عورت کی عزت اس کے میاں سے ہی ہوتی ہے (اے ایف پی فائل فوٹو)

کچھ ماہ پہلے میرا اپنی برسوں سے بچھڑی سکول کے زمانے کی دوست سے اچانک رابطہ ہوا۔ اس کی 20 سال کی عمر میں ہی شادی ہو گئی تھی۔ شادی کے بعد اس نے اپنا نمبر تبدیل کر لیا۔ اس وقت سوشل میڈیا پلیٹ فارم اس قدر استعمال نہیں ہوتے تھے۔ واٹس ایپ بھی کچھ سال بعد عام ہوا۔ دو چار بار اسے سوشل میڈیا پر ڈھونڈنے کی کوشش بھی کی پر کوئی فائدہ نہیں ہوا۔

ایک روز اسی نے مجھے تلاش کر لیا۔ اس نے نام بتایا، سکول کا حوالہ دیا تو میں فوراً اسے پہچان گئی۔ اس کا واٹس ایپ نمبر لیا اور کال ملا لی۔ ہم قریباً دس سال بعد بات کر رہی تھیں۔ ہم دونوں کے پاس کہنے سننے کو بہت کچھ تھا۔

اس نے بتایا کہ اس کے شادی کے بعد کے پانچ سال بہت برے گزرے۔ اس نے ان سالوں کی سختیاں صبر کا کلمہ پڑھتے ہوئے برداشت کیں۔

اس پر جو کچھ بیتا وہ وہی تھا جو ہماری مائوں، نانیوں اور ان کی نانیوں پر بیت چکا ہے۔ ساس نندوں کے جھگڑے، شوہر کی بے اعتنائی، خرچہ روکنا، پابندیاں لگانا، والدین کے گھر بھیجنے کی دھمکی دینا وغیرہ وغیرہ۔ پھر آہستہ آہستہ سب ٹھیک ہو گیا۔

میں نے اس سے پوچھا کیا اس کے ذہن میں کبھی اپنی شادی ختم کرنے کا خیال آیا؟

اس نے کہا نہیں۔ یہ آپشن ہی نہیں تھی۔ عورت کی عزت اس کے شوہر سے ہی ہوتی ہے۔ میری نانی نے مجھے شادی سے پہلے کہا تھا کہ شوہر جوتے میں کھانا کھانے کو دے، اس میں بھی عورت کی عزت ہے۔ سچ پوچھو تو ایسا ہی ہے۔ میں اسے چھوڑتی تو کہاں جاتی؟

مجھے اس کی بات سن کر ہزار سال پرانے چین کی وہ عورتیں یاد آئیں جو اپنے شوہر کی وفات کے بعد اپنی پوری زندگی اس کے نام پر گزار دیتی تھیں۔ چین میں اس وقت عورتوں کو سبق دیا جاتا تھا کہ تمہارے لیے شوہر کی وفات کے بعد فاقے سے مر جانا دوبارہ شادی کرنے سے بہتر ہے۔ ایسی عورتیں جن کے منگیتر ی

شوہر وفات پا جاتے تھے وہ اپنی پوری زندگی اس کے ماں باپ کی خدمت کرتے ہوئے گزار دیتی تھیں۔ اس وقت عورت کا مرد کو چھوڑنے یا اس کے بغیر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔

چین تو ان معاشرتی بیڑیوں کو کب کا توڑ کر آگے بڑھ چکا۔ ہم وہیں کے وہیں کھڑے ہیں۔ ہم میں سے کچھ شاید آگے نکل چکے ہیں لیکن اکثریت اور معاشرتی ڈھانچہ بہت پیچھے کھڑے ہیں۔

اسی وجہ سے سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر موجود خواتین کے گروپس میں جب کسی عورت کو اپنے مسئلے کے جواب میں اپنے منگیتر یا شوہر کو چھوڑنے کا مشورہ ملتا ہے تو وہ کچھ ہضم نہیں ہوتا۔ ہر حالت مختلف ہوتی ہے۔ ایک ہی فارمولا ہر جگہ نہیں لگایا جا سکتا۔

اگر کوئی اس مشورے پر عمل کر بھی لے تو وہ تنہا رہ جاتی ہے۔ مشورے دینے والے بھی مشورہ دے کر اپنی راہ لے لیتے ہیں۔ اس کے ساتھ نہ اس کا خاندان دیتا ہے، نہ معاشرہ، اور نہ حکومت۔ اسے پھر مجبوراً یا تو اسی مرد کے پاس لوٹنا پڑتا ہے یا کسی دوسرے مرد کا سہارا لینا پڑتا ہے۔

ایسے میں اگر صدف کنول نے کہہ دیا کہ ہمارا کلچر ہمارا میاں ہے تو کیا غلط کہا۔ ایسا ہی تو ہے۔ ہمارا کلچر ہمارا میاں ہی تو ہے۔ اس معاشرے میں عورت کی عزت اس کے میاں سے ہی ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کا شادی میں کردار بہت کچھ کرنے کے بعد بھی صفر رہتا ہے۔ دوسری طرف اس کے شوہر کا اس سے نکاح کرنا ہی اس کو زندگی بھر اپنا مقروض بنائے رکھنے کے لیے کافی ہے۔ اس کے بعد وہ چاہے جو مرضی کرے، اس کے رشتے دار بھی جو چاہے کریں، عورت کو سب برداشت کرنا ہے کیونکہ اس کی عزت شوہر کے ساتھ رہنے میں ہے۔

لبرل طبقہ صدف کو بتا رہا ہے کہ ہمارا میاں ہمارا کلچر یا مالک نہیں بلکہ ہمارا ساتھی ہے۔ صدف کو یہ بات سمجھ نہیں آئے گی۔ اسے دنیا کو ثابت کرنا ہے کہ اس نے کسی عورت کا گھر نہیں توڑا۔

اسے بتانا ہے کہ وہ ایک مرد کی بہترین چوائس تھی۔ اسے معاشرے میں قبولیت حاصل کرنی ہے اور وہ ایسے ہی حاصل کی جا سکتی ہے۔

نہیں یقین آتا تو سوشل میڈیا پر ہیش ٹیگ صدف کنول سرچ کر لیجیے۔ آپ کو صدف کا دفاع کرنے والے اس پر تنقید کرنے والوں سے زیادہ ملیں گے۔ دفاع کرنے والوں میں بھی زیادہ تر مرد ہوں گے۔

ہو سکتا ہے انہوں نے اپنی ٹائم لائن پر اس سے پہلے بڑی بڑی باتیں کی ہو جنہیں صنفی برابری کے کھاتے میں شمار کیا جا سکتا ہو پر اس معاملے میں وہ بھی ’صدف ٹھیک تو کہہ رہی ہے‘ لکھ رہے ہوں گے۔

یہ ہماری اکثریت کی سوچ ہے۔ اس کا تبدیل ہونا ضروری ہے لیکن یہ جب تک تبدیل نہیں ہوتی تب تک ہمارا کلچر ہمارا میاں ہی ہے۔ اب برداشت کریں یا پاس کریں، یہ آپ کی مرضی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ