'بہن کی تشدد زدہ لاش دیکھ کر سوچتا ہوں بیٹیوں کی شادی نہ کروں'

حیدرآباد میں شوہر کے ہاتھوں قتل ہونے والی قرۃ العین بلوچ کے بھائی کہتے ہیں کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور لاش دیکھ کر میں نے سوچا کوئی انسان کسی دوسرے پر ایسا تشدد کیسے کرسکتا ہے؟

قرۃ العین بلوچ (تصویر امر سندھو، فیس بک پیج)

سندھ کے دوسرے بڑے شہر حیدرآباد کی آبپاشی کالونی میں 15 جولائی کی رات کو شدید تشدد کے بعد قتل ہونے والی چار بچوں کی ماں 32 سالہ قرۃ العین بلوچ عرف عینی بُلیدی والے واقعے کے بعد سندھ کی سول سوسائٹی سراپا احتجاج ہے۔

ہفتے کی رات سے ٹوئٹر پر ہیش ٹیگ ’جسٹس فار قرۃ العین‘ ٹاپ ٹرینڈ رہا جبکہ ویمن ایکشن فورم نے حیدرآباد کے قاسم آباد ٹاؤن میں واقع نسیم نگر چوک پر مقتولہ عینی بُلیدی کی تصاویر کے سامنے موم بتیاں جلا کر احتجاج میں مطالبہ کیا ہے کہ مقتولہ کو انصاف دلوایا جائے۔

دوسری جانب تھانہ بلدیہ نے مقتولہ کے شوہر اور سابق سیکریٹری آبپاشی سندھ خالد حیدر میمن کے بیٹے عمر میمن کو قتل کے الزام میں گرفتار کرکے عدالت سے ان کا 22 جولائی تک ریمانڈ حاصل کرلیا ہے۔

انڈپینڈنٹ اردو کو ملنے والی لیاقت یونیورسٹی ہسپتال حیدرآباد کی ابتدائی پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق مقتولہ قتل سے پہلے شدید تشدد کیا گیا۔

رپورٹ میں بتایا گیا کہ عینی بُلیدی کے جسم کی کئی ہڈیاں بشمول ناک، جبڑے اور آنکھ کی ہڈی ٹوٹی ہوئی تھی جبکہ تشدد کے باعث آنکھ میں سوجن تھی۔

ابتدائی طور پران کی موت گلا دبانے سے ہوئی تاہم ابھی تک پتھالوجی رپورٹ جاری نہیں ہوئی جس سے موت کے اصل سبب کا پتہ لگ سکے گا۔

مقتولہ کے بھائی ثنا اللہ بلوچ نے انڈپینڈنٹ اردو سے ٹیلی فون پر گفتگو کرتے ہوئے بتایا: ’پوسٹ مارٹم کی رپورٹ اور بہن کی لاش کی بظاہر حالت دیکھ کر میں نے سوچا کوئی انسان کسی دوسرے انسان پر ایسا تشدد کیسے کرسکتا ہے؟

’بہن کی شدید تشدد کے ساتھ موت دیکھ کر اب سوچتا ہوں کہ اپنی بیٹیوں کی شادی ہی نہ کروں۔ بیٹیاں بوجھ تھوڑی ہیں کہ انہیں درندوں کے حوالے کردوں۔‘

انہوں نے بتایا کہ گذشتہ 10سال کے دوران بہن کو شوہر نے متعدد بار تشدد کا نشانہ بنایا۔ کئی بار بہن کے شوہر کو گھریلو تشدد پر گرفتار بھی کروایا۔

’دنیا داری کا سوچ کر بہن کو طلاق نہیں دلوائی۔ اب لوگ سوال کرتے ہیں کہ جب تشدد ہوتا تھا تو طلاق کیوں نہیں دلوائی؟ مگر کوئی بہن کے سسر سے نہیں پوچھتا کہ اس کا بیٹا اپنی بیوی پر اتنا تشدد کرتا تھا تو انہوں نے کیوں چپ سادھ لی؟

ثنا اللہ بلوچ نے دعویٰ کیا کہ قتل کے بعد جب انہوں نے ایف آئی آر درج کروانے کے لیے پولیس سے رابطہ کیا تو پولیس کا رویہ ناقابل برداشت تھا۔ پولیس نے انہیں ایسے باور کرایا جیسے وہ کوئی جھوٹی ایف آئی آر درج کروانا چاہ رہے ہوں۔

انہوں نے بتایا کہ ان کی بہن کے سسر خالد حیدر میمن نے کہا کہ آپ ایف آئی آر کٹوا لیں مگر میں اپنے تعلقات کی بنا پر بیٹے کو آزاد کروا لوں گا۔

’مجھے نہیں لگتا کہ اس ملک میں ہمیں انصاف مل سکے گا۔ میں سول سوسائٹی کا شکرگزار ہوں جس کی بدولت کیس تو درج ہوگیا لیکن پتہ نہیں کہ انصاف ملے گا یا نہیں؟'

ملزم عمر میمن کی وکیل صائمہ آغانے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’ثنا اللہ بلوچ کی یہ بات کہ خالد حیدر میمن نے گھر آکر اپنے بیٹے کو آزاد کروانے کی بات کی اس میں کوئی صداقت نہیں۔‘

وکیل کے بقول: ’جو ایف آئی آر کاٹی گئی ہے اس میں گھریلو تشدد کا تو ذکر ہے مگر کہیں ایسا نہیں لگتا کہ تشدد کے باعث قتل ہوا ہو۔

’ہر گھر میں شادی شدہ افراد کا جھگڑا ہوتا رہتا ہے۔ شاید وہ گھر میں سلپ ہوگئی ہوں جس سے ان کی موت واقع ہو گئی ہو مگر فائنل پولیس انویسٹیگیشن کے بعد ہی کچھ کہا جا سکتا ہے۔‘

کیس کی تفتیش کرنے والی اے ایس پی حیدرآباد سٹی علینہ راجپر نے بتایا کہ ’پولیس نے مقتولہ کے گھر والوں کی مرضی سے ایف آئی آر درج کی، انہوں نے جو کہا وہ لکھا گیا۔ ایف آئی آر کٹنے کے چند گھنٹوں بعد مقتولہ کے شوہر کو گرفتار کرلیا۔

’تفتیش میں بھی مقتولہ کے گھروالوں کو ساتھ رکھا۔ انہوں نے کہا کہ قتل کرنے کے بعد لاش کے کپڑے تبدیل کیے گئے، ہم نے وہ بھی تفتیش میں شامل کیا ہے۔

ایک سوال کے جواب میں علینہ نے کہا: ’ہاں ابتدائی تفتیش کے بعد مجھے ذاتی طور پر لگتا ہے کہ قرۃ العین بلوچ کو ان کے شوہر عمر میمن نے ہی تشدد کرکے قتل کیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ویمن ایکش فورم سندھ چیپٹر کی سرکردہ رہنما امر سندھو نے کہا پولیس کا ایف آئی آر درج کر کے جلد ہی ملزم کو گرفتار کرنا قابل تعریف ہے مگر اب یہ دیکھنا ہے کہ پولیس اس کیس کی کس طرح تفتیش کرکے عدالت میں چالان پیش کرتی ہے اور اس میں کہیں قاتل کو بچنے کا راستہ تو نہیں دیا جارہا؟

ان کے مطابق گھریلو تشدد کو کسی صورت میں برداشت نہیں کیا جا سکتا، گھریلو تشدد کی انتہا ہوتی ہے جب شوہر کے ہاتھوں بیوی قتل ہوجاتی ہے۔

’گذشتہ دو مہینوں کے دوران حیدرآباد میں چار خواتیں کو ان کے شوہروں نے قتل کیا۔

سندھ میں خواتین کو گھریلو تشدد سے بچانے کے لیے ڈومیسٹک وائلنس (پریوینشن اینڈ پروٹیکشن) ایکٹ 2013 کا قانون موجود ہے، جس میں گھریلو تشدد میں ملوث افراد کو ایک ماہ سے دو سال قید کی سزا تجویز کی گئی ہے جبکہ ملزم پر 50 ہزار روپے جرمانہ بھی عائد کیا جا سکے گا۔

ثنا اللہ بلوچ کے مطابق: ’کئی سال سے شوہر میری بہن پر تشدد کرتا رہا۔ ہم نے پولیس سے کیس درج کرنے کی کئی بار درخواست کی مگر کبھی کیس درج نہیں کیا گیا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان