جیب خرچ سے 150 بچوں کا سکول چلانے والی ماہ نور

سندھ یونیورسٹی کی طالبہ ماہ نور شیخ کو سسرال نے گاؤں میں ایک گھر بنا کر دیا جسے انہوں نے سکول میں تبدیل کر دیا۔

ایک بڑے قبرستان کے سامنے بنے نئے مکان کے ہال اور دو کمروں میں بچے ماسک لگائے زمین پر بچھے قالین پر بیٹھے ہیں اور دیوار پر لگے بورڈ پر گاؤں کی نوجوان لڑکیاں انھیں سندھی پڑھا رہی ہیں۔

یہ مناظر سندھ کے ضلع نوشہروفیروز کے ضلعی صدر شہر سے کچھ فاصلے پر واقع گاؤں محمد بچل مہر کے ایک نجی سکول کے ہیں۔

اس سکول کو سندھ یونیورسٹی جامشورو میں شعبہ ایجوکیشن کے تیسرے سال کی طالبہ ماہ نور شیخ چلا رہی ہیں۔

ماہ نور شیخ بتاتی ہیں کہ ’یہ گاؤں میرا سسرال ہے اور انہوں نے یہ گھر یوں بنایا کہ شاید میں شادی کے بعد یہاں رہوں، مگر میں نے شہر میں رہنا پسند کیا لہٰذا یہ گھر خالی تھا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’گذشتہ سال کرونا وبا کے باعث لاک ڈاؤن ہوا تو میری یونیورسٹی بند ہوگئی۔ جب میں گاؤں آئی تو دیکھا کہ سامنے والے قبرستان میں فاتح پڑھنے کے لیے آنے والے لوگ گاؤں کے بچوں کو بھیک دے رہے ہیں اور بچے بھی ان لوگوں کا انتظار کرتے نظر آئے کہ کب لوگ آئیں اور انھیں بھیک دیں۔‘

انہوں نے کہا: ’مجھے یہ بات ناگوار گزری اور میں نے سوچا کہ یہ بچے پڑھنے کی بجائے بھکاری بن رہے ہیں۔

’یونیورسٹی بھی بند تھی اور سکول کے لیے جگہ بھی موجود تھی تو میں نے گاؤں کے بچوں کو پڑھانے کی ٹھانی۔‘

ماہ نور کے مطابق جب انھوں نے گاؤں میں سکول شروع کیا تو مقامی لوگوں نے شدید مخالفت کی اور کوئی بھی اپنے بچوں کو ان کے سکول نہیں بھیج رہا تھا، مگر پھر چند بچوں کے ساتھ انھوں نے سکول شروع کردیا۔

’آہستہ آہستہ لوگ آمادہ ہوتے گئے اور نہ صرف اپنے بچوں بلکہ بچیوں کو بھی پڑھنے کے لیے سکول بھیجتے ہیں۔ آج میرے سکول میں ڈیڑھ سو بچے زیر تعلیم ہیں۔‘

کچھ عرصے بعد ماہ نور نے سکول میں پڑھنے والے تھوڑی بڑی لڑکیوں کو سکول میں بطور استاد پڑھانے کے لیے آمادہ کیا اور اب ان کے سکول میں تین لڑکیاں استاد کی حیثیت سے پڑھاتی ہیں۔ 

’میں اپنے جیب خرچ سے ان لڑکیوں کو تھوڑی بہت تنخواہ دیتی رہتی ہوں۔ اس سے گاؤں والوں کا اعتماد بڑھا کہ پڑھائی کرنے کے بعد ان کی بچیاں استاد کی حیثیت سے کام بھی کرسکتی ہیں۔‘

انہوں نے بتایا کہ اس سکول کے لیے انہیں کسی نے کوئی پیسے نہیں دیے۔

’کرونا لاک ڈاؤن میں جب یونیورسٹی بند تھی، ہاسٹل، میرے آنے جانے اور وہاں رہنے اور کھانے پینے کے پیسے بچ گئے تھے، عمارت اپنی تھی اس لیے آسانی سے سکول کھول لیا اور اب اتنے سارے بچے پڑھ رہے ہیں تو دل بھی کرتا ہے کہ مزید پیسے لگا کر بچوں کو پڑھاؤں۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے مزید بتایا کہ سندھی ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ (سانا) والوں نے انہیں سولر پینل بھیجے تھے جبکہ باقی رقم انہوں نے خود اپنی جیب سے لگائی۔

کرونا لاک ڈاؤن میں سکول چلانے سے متعلق سوال کے جواب میں انہوں نے بتایا کہ وہ تمام بچوں کو ماسک اور سینیٹائزر دیتی ہیں اور سماجی دوری کا بھی خیال رکھا جاتا ہے۔

’اس کے علاوہ بچوں کو ٹوتھ برش اور ٹوتھ پیسٹ مہیا کرنے کے ساتھ ہاتھ دھونے کا صابن بھی رکھتے ہیں اور بچوں کو باربار ہاتھ دھونے کی تلقین کرتے ہیں۔‘

ماہ نور کے سکول میں بچوں سے کوئی فیس وصول نہیں کی جاتی جبکہ انھیں کتاب اور کاپیاں سکول کی طرف سے مہیا کی جاتی ہیں۔ 

سکول کے مستقبل کے حوالے سے سوال کے جواب میں انہوں نے  بتایا کہ بچوں کو پڑھتا دیکھ کر گھر والے خوش ہیں اور ان کے شوہر بھی ان کے ہاتھ بٹاتے ہیں۔

’اب جبکہ گاؤں کی مقامی لڑکیاں پڑھانا شروع ہوگئی ہیں تو یہ سکول مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی کیمپس