کنٹینر میں لگنے والا گجرات کا سٹریٹ سکول

گجرات کے کچہری چوک میں واقع سٹیڈیم کی پارکنگ جہاں صبح کے وقت گاڑیوں سے بھری رہتی ہے، وہیں شام میں یہ جگہ الف ب پ کی آوازوں سے گونجتی ہے۔

اس سٹریٹ سکول کا خیال تو منان لیاقت نامی ایک وکیل کو آیا تھا، مگر پھر ان کے ساتھ  دیگر لوگ بھی  اس کارخیر میں شامل ہو گئے (فوٹو:عمران  سوہی)

گجرات کے کچہری چوک میں کھڑے ایک رنگین کنٹینر میں ہر روز شام کو ایک سکول لگتا ہے جہاں وہ بچے تعلیم حاصل کرتے ہیں جو یا تو بھیک مانگتے ہیں یا پھر وہ بچے جو پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہیں اور شہر کی سڑکوں سے کاغذ، گتہ یا دیگر اشیا چنتے ہیں اور انہیں فروخت کرکے اپنا اور اپنے گھر والوں کا پیٹ پالتے ہیں۔

اس سٹریٹ سکول کا خیال تو منان لیاقت نامی ایک وکیل کو آیا تھا، مگر پھر ان کے ساتھ نہ صرف ان کے دوست احباب بلکہ گجرات کے ڈی پی او آفس کے ہیڈ کانسٹیبل سلیمان بٹ اور ڈی پی او کے پرسنل سیکرٹری عمران فاروق سوہی بھی اس کارخیر میں شامل ہو گئے۔

منان ’ٹیچ ون ایچ ون‘ کے نام سے ایک پراجیکٹ چلا رہے ہیں، جس کے تحت انہوں نے گذشتہ پانچ برس میں تین سکول قائم کیے ہیں، جن میں سے دو گجرات اور ایک اسلام آباد میں ہے۔

گجرات کے کچہری چوک میں واقع سٹیڈیم کی پارکنگ جہاں صبح کے وقت گاڑیوں سے بھری رہتی ہے، وہیں شام میں یہ جگہ الف ب پ کی آوازوں سے گونجتی ہے۔

وکالت کے پیشے سے وابستہ منان لیاقت 2014 میں ایک بینک میں ملازمت کر رہے تھے۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ کس طرح انہیں اس سکول کو کھولنے کا خیال آیا۔ ’ایک روز بینک سے واپس گھر آتے ہوئے گجرات کے کچہری چوک میں سگنل پر میں نے ایک بچے کو کوڑے سے اخبار کا ٹکڑا اٹھا کر پڑھنے کی کوشش کرتے دیکھا۔میں نے سوچا کہ شاید یہ بچہ پڑھنا چاہتا ہے لیکن اس کے پاس وسائل نہیں ہیں۔ تب ہی میں نے سوچا کہ میں اسی جگہ کو سکول میں تبدیل کر دوں گا۔ یہاں سے میرے خواب کا آغاز ہوا۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’میں نے ایک ٹیم بنائی جس میں میرے یونیوسٹی کے چند دوست وغیرہ شامل تھے۔ پہلا سکول میں نے گجرات سے 14 ، 15 کلو میٹر دور شادی وال کے بٹر گاؤں میں اپنے آبائی گھر میں بنایا۔ 2016 میں وہاں گاؤں کے بچوں نے پڑھنا شروع کیا۔ اس کے بعد 2017 میں میں نے اور میرے ساتھیوں نے کچہری چوک والے سٹیڈیم کی پارکنگ میں آکر بیٹھنا شروع کر دیا۔ وہاں ہم ان بچوں کو پکڑ کر لاتے جو بھیک مانگتے تھے یا جو پناہ گزین بچے تھے۔‘

منان نے بتایا کہ پہلے سال ان کے پاس بچوں کی تعداد صرف چار تھی۔ ’ہمارے لیے وہ بہت مایوس کن تھا۔ پھر ہم نے ایک حکمت عملی بنائی اور جو بچے آرہے تھے انہیں مارکیٹنگ ٹول کے طور پر استعمال کیا۔ کاغذ چننے والے بچوں کے لیے سائیکل کی بڑی اہمیت ہوتی ہے۔ ہم ایک سائیکل خرید کر لائے اور پیشکش کی کہ یہ اس بچے کو ملے گی جو اپنے بہن بھائیوں اور دوستوں کو سکول میں پڑھنے کے لیے لے کر آئے گا۔ ہمارا یہ منصوبہ کام کر گیا اور ہمارے پاس 25 سے 30 طالب علم آ گئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’سکول اس وقت صرف ایک پارکنگ سپاٹ پر بنا ہوا تھا، جہاں دن بھر گاڑیاں پارک رہتی تھیں اور شام کو جب پارکنگ خالی ہو جاتی تو ہم وہاں بچے لے کر بیٹھ جاتے۔ یہ چونکہ سٹیڈیم کی پارکنگ تھی اور پبلک ایریا تھا اس لیے ہمارے وہاں بیٹھنے پر کسی کو اعتراض بھی نہیں ہوا۔ میں اور میرے دوست رضاکارانہ طور پر بچوں کو پڑھاتے تھے۔ ان بچوں میں سے جو بچے اچھی کارکردگی دکھاتے تھے ہم انہیں مین سٹریم سکولوں میں داخل کرواتے گئے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’2020 میں گجرات کے ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ پولیس آفیسر ہمارا سکول دیکھنے آئے۔ ہماری اس کاوش کو دیکھ کر انہوں نے بھی ہماری مدد کرنے کا وعدہ کیا۔ میں نے انہیں بتایا کہ اگر ایک کنٹینر مل جائے تو ہم اسے سکول کی شکل دے سکتے ہیں۔ ڈی پی او اور ڈی سی نے ہماری مدد کی اور سٹیڈیم کے باہر فٹ پاتھ کو بیس بنا کر 12 بائی 40 کا کنٹینر وہاں رکھوا دیا اور ساتھ ہی ہمارے اس سکول کی بجلی کا ذمہ بھی اٹھالیا۔‘

’ہم نے اس کنٹینر کو باقاعدہ سکول کی شکل دی۔ اس میں فرنیچر، اے سی، پراجیکٹر وغیرہ سب رکھا۔ ڈی پی او اور ڈی سی گجرات نے بچوں کی ویسے بھی مدد کی اور انہیں کپڑے اور جوتے وغیرہ مہیا کیے۔ اس کے بعد ڈی پی او کے پرسنل سیکرٹری عمران سوہی بھی بطور رضاکار ہمارے ساتھ شامل ہو گئے جبکہ ڈی پی او آفس کے ہیڈ کانسٹیبل سلیمان پہلے سے ہی ہمارے ساتھ بطور رضاکار کام کر رہے تھے۔‘

اس سکول کے بارے میں ڈی پی او گجرات کے پرسنل سیکرٹری عمران سوہی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا۔ ’بچوں اور ان کے خاندانوں والوں کو اس بات کے لیے منانا بہت مشکل کام ہے کہ وہ اپنے بچوں کو سکول بھیجیں۔ بھیک مانگنے والے بچوں کو چار دیواری میں بند نہیں کر سکتے یہی وجہ ہے کہ ہم نے انہیں کھلی جگہ پر بٹھانا مناسب سمجھا۔ اس طرح دوسرے بچوں میں  بھی انہیں دیکھ کر تعلیم حاصل کرنے کا شوق پیدا ہوتا ہے۔‘

 انہوں نے مزید بتایا کہ اس سکول کے بارے میں انہیں ان کے ہیڈ کانسٹیبل سلمان نے بتایا تھا، جس کے بعد انہوں نے ڈی پی او گجرات کو بتایا اور انہیں وہاں لے گئے، ڈی پی او نے پھر ڈپٹی کمشنر سے بات کی۔ ’پھر ہم نے انہیں 12 لاکھ روپے کا کنٹینر دلوایا، اس میں بجلی لگوائی اور فرنیچر رکھوایا۔‘

یہ سکول شام چار بجے سے مغرب تک چلتا ہے۔ عمران نے بتایا کہ اس سکول پر ماہانہ اڑھائی لاکھ روپے خرچہ آتا ہے۔

عمران سوہی کو اس سکول کی طرف راغب کرنے والے ہیڈ کانسٹیبل سلمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انہوں نے بطور رضا کار غریب بچوں کی سکول میں مدد کرنے کا آغاز چار پانچ برس قبل کیا تھا۔ وہ ایک ٹی وی ڈرامے سے متاثر ہوئے تھے جس میں ایک غریب بچی کو اپنی تعلیم جاری رکھنے میں مشکلات کا سامنا تھا۔ ’میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں ایسا کچھ کروں کہ کوئی غریب بچہ پیسوں کی کمی کی وجہ سے تعلیم حاصل کرنے سے نہ رہ جائے، جس کے بعد میں نے بچوں کو سکولوں میں مفت سٹیشنری مہیا کرنی شروع کی۔ اس وقت پنجاب اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 500 کے قریب بچے ہیں جنہیں میں سٹیشنری مہیا کرتا ہوں اور اسی میں منان لیاقت کے تین سکول بھی شامل ہیں۔‘

ان کا کہنا تھا کہ شروع میں تو وہ خود اپنے پیسے بچا کر سٹیشنری خریدتے تھے لیکن پھر میرے ان کے کچھ کلاس فیلوز وغیرہ بھی اس کام میں شامل ہوئے اور اب ان کا دائرہ بڑھتا جارہا ہے۔

سلمان نے بتایا: ’میرا ایک خواب ہے کہ میں ایک ایسا سکول بناؤں جہاں ہم بچوں کو بین الاقوامی زبانیں سکھائیں کیونکہ یہ بہت ضروری ہے۔ دوسرا اس سکول میں بچوں کو اس طرح تعلیم دی جائے جہاں انہیں شروع میں ہی معلوم ہو کہ انہیں آگے چل کر کیا کرنا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ بھکاری بچوں کو وہ بھیک مانگنے سے روک بھی رہے ہیں اور ان میں سے بیشتر کی مائیں بھی ان کے پاس آتی ہیں کہ ان کے بچوں کو پڑھا لکھا کر بھیک سے ان کی جان چھڑوائی جائے، ’اس لیے ہم ان بچوں کو ہر طرح کی سہولت دیتے ہیں یہاں تک کہ کچھ کے گھر میں راشن بھی بھجوا دیتے ہیں۔‘

سٹریٹ سکول میں کس جماعت تک تعلیم دی جاتی ہے؟

منان لیاقت نے بتایا: ’سب سے بڑی غلطی سٹریٹ چلڈرنز کو سیدھا سکول میں داخل کروانا ہے۔ ان میں سے کوئی بھی بچہ اس کے لیے تیار نہیں ہوتا۔ جب بچہ ہمارے پاس آتا ہے تو اسے ایک دو ماہ تو پڑھنے کے لیے بھی نہیں کہا جاتا۔ ہم پہلے تو ان کی زبان درست کرتے ہیں، انہیں تمیز سے بات کرنا، اٹھنا بیٹھا، کھانے کے آداب یہاں تک کہ سیلف ڈیفینس کے لیے کراٹے بھی سکھاتے ہیں۔ ہم انہیں پینٹ کرنا سکھاتے ہیں۔ وہ ہمارے ساتھ جا کر شاپنگ بھی کرتے ہیں اور ریستوران میں جاکر کھانے بھی کھاتے ہیں۔ اس کے بعد ان بچوں کا ہمارے ساتھ ایک تعلق بن جاتا ہے۔ پھر وہ وقت آتا ہے جب وہ ہم سے پوچھنا شروع کرتے ہیں کہ یہ باقی بچے یہاں آکر کیوں پڑھتے ہیں ہم کیوں نہیں پڑھتے؟ ہم ان سے کہتے ہیں آپ بھی پڑھ لیں اور پھر ہم انہیں کتابیں دیتے ہیں۔ اب وہ اپنی دلچسپی کے ساتھ پڑھنا شروع کرتے ہیں کیونکہ ہم انہیں اپنی زندگی کے اس فیصلے کا پورا موقع اور وقت فراہم کرتے ہیں۔  جس کے بعد انہیں مین سٹریم سکولز میں بھیجا جاتا ہے اور یہ اپنے اس پرانے سکول کو ایک ٹیوشن سینٹر کے طور پر استعمال کرتے رہتے ہیں۔‘

منان نے بتایا کہ اس وقت بھی کنٹینر سکول کے اندر وہ بچے بیٹھتے ہیں جو پروموٹ ہو چکے ہیں اور دیگر نجی و سرکاری سکولوں میں جاچکے ہیں، جبکہ باقی بچے جن کو گرومنگ کی ضرورت ہے انہیں ہم اب بھی سٹیڈیم کی پارکنگ میں لے کر بیٹھتے ہیں۔

اس سکول کو فنڈنگ کہاں سے ملتی ہے؟

فنڈنگ کے حوالے سے منان، عمران اور سلمان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’اس وقت ہمارے تین سکول چل رہے ہیں جن میں سے ایک ہم نے حال ہی میں اسلام آباد کے ایک پارک میں چلانا شروع کیا ہے۔ ہم نے اس سکول کو مختلف بزنس آئیڈیاز کے ساتھ جوڑ دیا۔ ہم نے گجرات اور گردو نواح کی جتنی یونیورسٹیاں اور کالج تھے وہاں فوڈ سٹال لگانے شروع کیے جیسے مینا بازار ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ مختلف یونیورسٹیوں میں ون ڈے شوز کروائے۔ اس کے علاوہ ہم چیرٹی ڈنرز یا چیرٹی ٹرپس کرواتے تھے، جس میں بہت سے لوگ آتے تھے۔ اس سے ہمیں اچھی خاصی رقم جمع ہو جاتی تھی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم نے 70 سے 80 بچوں کی ماہانہ فیس اور دیگر اخراجات پورے کرنے ہوتے ہیں اور یہ وہ بچے ہیں جو میں سٹریم سکولز میں جا چکے ہیں۔ سٹریٹ  سکول کچہری چوک گجرات سے صرف 30 سے 35 بچے ہیں جو اب اچھے پرائیویٹ سیکٹر سکولز میں جا رہے ہیں اور 20 سے 25 بچے سرکاری سکولوں میں جا رہے ہیں۔ بچہ جس علاقے سے ہے وہاں سے قریب ترین سکول میں ہم اسے داخل کرواتے ہیں تاکہ انہیں آنے جانے میں کوئی مسئلہ نہ ہو۔‘

انہوں نے بتایا کہ کاروباری حضرات، انڈسٹریلسٹ اور ان کے جاننے والے ان بچوں کے اخراجات کے لیے ماہانہ ہمیں عطیات بھیجتے ہیں۔ ’جب ہمارے پاس بچے مین سٹریم سکول میں جانے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں تو ہم اس کے لیے ایک سپانسر ڈھونڈتے ہیں کہ کوئی ایسا شخص جو اپنے بچوں کے ساتھ اس ایک بچے کی فیس بھی ادا کر دے۔‘

سٹریٹ سکول کے حوالے سے گجرات کے ڈی پی او محمد عمر فاروق سلامت نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں جب سٹریٹ سکول کا معلوم ہوا تو ہم نے سوچا کہ سٹی ڈسٹرکٹ پولیس کو جتنا بھی ہو سکے اس سکول کو معاونت یا تعاون فراہم کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا: ’میرے خیال میں یہ سٹریٹ چلڈرن معاشرے کی ذمہ داری ہیں۔ اگر ان بچوں کی باقاعدہ تعلیم و تربیت کی جائے تو یہ بہت سے جرائم پیشہ افراد کے ہاتھ لگنے سے بچ جاتے ہیں۔‘

ڈی پی او گجرات نے بتایا کہ وہ خود اس سکول کا دورہ تواتر سے کرتے ہیں اور اکثر ڈی سی گجرات بھی ان کے ساتھ جاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’اب ہماری کوشش ہے کہ سٹریٹ سکول جیسے اور مزید سکول بنائے جائیں کیونکہ اس سکول کا قیام نہ صرف ان بچوں اور ان کے خاندانوں کے لیے ایک اچھا قدم ہے بلکہ پولیسینگ اور کرائم کنٹرول میں بھی یہ مددگار ثابت ہوگا۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نئی نسل