بلاول بھٹو اور مریم نواز شریف کی تصویریں دیکھ کر موروثی سیاست کی آہیں بھرنے والوں کو مبارک ہو کہ انہوں نے وہ راستہ کامیابی سے چنا ہے جو پاکستان کی تاریخ میں ہمیشہ ان لوگوں کے بھاری جوتوں سے پائمال ہوا جنہوں نے یہی نعرہ لگا کر بار بار جمہوری عمل کو سست کیا، اسے روکنے کی کوشش کی اور آئین سے منحرف ہونے کے چلن کو اپنا شعار کیا۔ فاطمہ جناح بمقابلہ ایوب خان اس معاملے کی ابتدا تھی اور مریم بلاول بمقابلہ ’منتخب حکومت‘ اس کی انتہا!
فرض کیا آپ کے والد پولیس میں ہیں یا فوج میں ہیں۔ آپ ایک ذہین نوجوان ہیں۔ آپ نے پوری ایمان داری اور محنت سے اپنا تعلیمی عمل مکمل کیا ہے۔ آپ لائق ہیں، آپ اہلیت رکھتے ہیں، آپ جسمانی طور پہ چست ہیں، قد بھی آپ کا لمبا ہے، آپ دوڑتے بھی اچھا ہیں، دو جمع دو چار سے آگے آپ کی سوچ بھی نہیں جاتی، آپ کا دماغ فلسفیانہ قسم کا نہیں ہے نیز آپ عمل پر یقین رکھتے ہیں۔ تو کیا آپ اس وجہ سے پولیس یا فوج میں ملازمت کے لیے اپلائے نہیں کریں گے کہ آپ کے والد وہاں ملازمت کرتے ہیں؟ یا آپ کے والد یہ چاہیں گے کہ میری اولاد وہاں کبھی کام نہ کرے جہاں میں کرتا ہوں؟ کیا پاکستانی آئین میں کہیں یہ بات لکھی ہے کہ نسبی تعلق آپ کو کسی نوکری یا کسی کاروبار یا کسی عہدے یا کسی جدوجہد یا کسی جمہوری عمل میں شریک ہونے سے روک سکتا ہے؟
سیاست تو بابا وہ معاملہ ہے کہ جس میں زور ہے وہ آئے اور ساغر و مینا تھام لے۔ جس میں نہیں ہے وہ بس کسی کے بلانے پر کینیڈا سے آئے، سادہ لوح مریدوں کی قربانیاں دے اور واپس لوٹ جائے۔ یا پھر ایک پریشر گروپ کی صورت اختیار کر کے سیاست اور ریاست کو یرغمال بنانے کے لیے استعمال ہو اور بعد میں توبہ تلا کر کے سیدھا ہو جائے۔ بڑے بڑے ڈرامے اس نسل نے بھی دیکھ لیے اور فقیر سے پہلے والے بھی دیکھ چکے۔ لائیں ذرا کوئی کہ جس کی ماں نے جانتے بوجھتے ہوئے گولی کھائی ہو، اور جس کے قتل کے بعد جلسہ گاہ بھی دھو دی گئی ہو، جس کے نانا نے جانتے بوجھتے ہوئے پھانسی کا پھندہ گلے سے لگایا ہو، جس کے دو ماموں اسی بے رحم سلسلے کا نشانہ بنے ہوں جسے آپ پاکستانی سیاست کہتے ہیں اور جس کی نانی جوان اولاد کے غم میں ذہنی مریض ہو کے مری ہو۔ یہ سب کچھ برداشت کرنے کے بعد اگر بلاول سیاست میں نظر آ رہا ہے تو کم از کم اتنا میرٹ والا تو کوئی لائیں جو موروثی سیاست کے اس میزان پہ بھی پورا اترتا ہو؟ بےنظیر نے یہ راستہ کیوں اختیار کیا، صنم بھٹو نے کیوں نہ کیا؟ بلاول نے کیوں اختیار کیا اور فاطمہ یا ذوالفقار جونیر نے کیوں نہ کیا؟ معاملہ صرف عوامی حمایت کا ہے۔ جس میں دم ہے وہ اپنے زور بازو پہ سامنے آتا ہے نہ کہ غیر جمہوری طفیلیوں کی طرح کسی کی بیساکھی اور کسی کی انگلی کے سہارے کھڑا ہوتا ہے۔
رہ گئی بات مریم نواز کی تو انہیں تاریخ نے خود آج اس جگہ کھڑا کر دیا ہے جہاں کبھی بےنظیر موجود تھیں۔ موروثی سیاست اتنا ہی آسان کام ہے تو حسن یا حسین نواز اس میدان میں کیوں نہیں اترے؟ اور کچھ نہیں تو باوجود تمام وسائل میسر ہونے کے، شہباز شریف یا حمزہ شہباز وہ عوامی مقبولیت کیوں نہ حاصل کر سکے جو آج مریم نواز کا حصہ ہے، جو خود بہ خود ان کا مقام متعین کرتی ہے؟ کچھ تپڑ، کچھ جگرا، کچھ ہمت، کچھ بہادری، کچھ جمہوری سوچ اور کچھ آئینی فہم حاصل ہو تو اس کے بعد ہی موروثیت بھی کسی کام آتی ہے ورنہ صرف نطفہ بردار ہو کر کوئی زیادہ دور نہیں جا سکتا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اگر آپ موروثی سیاست کے خلاف ہیں تو آپ مریم نواز کو ووٹ نہ دیں، آپ بلاول بھٹو کو ووٹ نہ دیں لیکن آپ اگر یہ چاہیں کہ انہیں انتخابی عمل کا حصہ نہیں بننا چاہیے یا انہیں سیاست میں حصہ اس لیے نہیں لینا چاہیے کہ ان کے ماں باپ پہلے سے اس میدان میں ہیں تو یہ نہ صرف ملکی آئین سے متصادم خواہش ہے بلکہ وہ جذبہ ہے جسے ایکسپلائٹ کرتے کرتے آج ملک اس صورت حال پر پہنچ چکا ہے جس کے بارے میں شاعر لوگ کہتے تھے کہ گھوڑا دیوانہ وار بھاگ رہا ہے اور سوار کے ہاتھ میں نہ باگ ہے اور نہ پیر اس کے رکاب میں ہیں۔ لطف کی بات یہ ہے کہ سوار ہونے والا اب بھی یہی سمجھتا ہے کہ سواری آسان کام ہے۔
تنقید کا حق آپ کو اس وقت حاصل ہوتا جب بھٹو صاحب بادشاہ ہوتے اور اپنا تاج اتار کے بے نظیر کو پہنا جاتے، بے نظیر جاتیں تو وہ تاج بلاول کے سر پہ آ جاتا۔ یا کم از کم اس وقت آپ بولتے جب ملکی آئین توڑ کے یہ تاج بلاول خود سر پہ سجا لیتا، ادھر تاج کا تو کیا ذکر، تاراج لاشیں ہیں، خون ہے، انصاف کی طویل اور بھیانک راہداریاں ہیں اور بہت دیر سے طلوع ہونے والی صبح ہے کہ جس میں یہ ’موروثی سیاست دان‘ اپنا حق مانگتے پھرتے ہیں۔ اگر وہ مریم نواز موروثیت کی پیداوار ہے کہ جس کا باپ سابق وزیر اعظم ہوتے ہوئے بھی علاج کی بنیادی سہولیات حاصل نہیں کر سکتا، جس کی ماں بستر مرگ پر شوہر کو دیکھنے کے لیے ترستی رہی تو بھائی لے آئے 22 کروڑ پاکستانی عوام کوئی غیر موروثی ایسا جو سیاست بال برابر بھی جانتا نہ ہو، پورے ملک کی بھد اڑواتا پھرے، اور ڈالر کو پیٹرول سمیت آگ لگواتے رہے، کون روکتا ہے؟
سیاسی میدان میں ایک سے بڑھ کر ایک نام موجود ہے۔ وزارت کے اہل ہیں، ملکی باگ دوڑ چلانا جانتے ہیں، امور حکومت اور سیاست کی باریکیاں سمجھتے ہیں۔ کئی نام لیے جا سکتے ہیں۔ خورشید شاہ، رضا ربانی، فرحت اللہ بابر، خواجہ آصف، اعتزاز احسن، پرویز رشید، قمر زمان کائرہ یہ سب وہ محترم نام ہیں جو اپنی اپنی پارٹیوں کے جمہوری ستون ہیں۔ لیکن کیا بطور لیڈر یہ پورے ملک میں پھیلی ہوئی ایک جماعت چلا سکتے ہیں؟ سوچیے، دماغ پہ زور ڈالیے۔ جب اس سطح کا لیڈر پیپلز پارٹی یا نواز لیگ کا مرکزی چہرہ نہیں ہو سکتا تو خرابی آئین میں ہے یا پاکستانی عوام کے دماغ میں جنہیں صرف بھٹو کی اولاد یا شریفوں کی اولاد چاہیے؟ یا پھر مسئلہ ان دانشوروں کے دماغ میں ہے جو کسی کے نیک و بد سمجھانے پہ موروثی سیاست کا نعرہ مار کے ہر دو مہینے بعد اگلے دو مہینے کے لیے سو جاتے ہیں۔ سوچنے والا دماغ چوہدری نثار کی مثال پہ بھی غور کر سکتا ہے۔
ڈرنے والے خالی افطاری کی تصویروں سے ڈر جاتے ہیں، جو نہیں ڈرتے وہ اپنے سر کی چھاؤں عدالتوں میں رلوا کر، جیلوں میں بھروا کر اور پھانسی چڑھوا کر بھی نہیں ڈرتے۔ ہمارا تمہارا خدا بادشاہ!