یوم تکبیر اور دیگچیوں سے برآمد ہونے والے بم

جب خاران میں ایٹمی تجربہ ہوا تو ریگستان میں ایئرکنڈیشنڈ کنٹینر میں دو درجن کے قریب سائنس دان اور انجینیئر تھے۔ ’میں نے ایڈمنسٹریٹر سے پوچھا کہ کھانے کا کیا انتظام ہے؟ اس نے بتایا کہ قریبی قصبے سے بمشکل پانچ مرغیاں ہی حاصل ہوسکی ہیں۔

1998 میں بلوچستان کے چاغی پہاڑ پر ایٹمی ٹیسٹ (پی ٹی وی سکرین گریب)

عباس اطہر مرحوم کا 14 اگست 2009 کو ایک معاصر اخبار میں چھپنے والا کالم ہمارے پاس محفوظ ہے۔ اس میں انہوں نے ایٹمی سائنس دان ڈاکٹر ثمر مبارک مند کی ایک تقریر کا وہ حصہ نقل کیا ہے جس میں ڈاکٹر صاحب نے پاکستان کے ایٹمی دھماکے کے دوران رونما ہونے والا ایک ایمان افروز واقعہ سنایا تھا۔ واقعے کا خلاصہ کچھ یوں ہے:

جب خاران میں آخری ایٹمی تجربہ ہوا تو دن کے ساڑھے 11 بجے کا وقت اور درجۂ حرارت 50 سے اوپر تھا۔ ریگستان میں ایئر کنڈیشنڈ کنٹینر میں ہم دو درجن کے قریب سائنس دان اور انجینیئر تھے۔ میں نے اپنے ایڈمنسٹریٹر سے پوچھا کہ کھانے کا کیا انتظام ہے؟ اس نے بتایا کہ قریبی چھوٹے سے قصبے یخ مچ سے بمشکل پانچ مرغیاں ہی حاصل ہو سکی ہیں جو ہم نے پکا دی ہیں، باقی بلوچستان کے اس ریگستان میں تین تین سو کلومیٹر تک کوئی انسان نہیں ہے، لہٰذا جو بنا ہے وہ کھا لیں۔

باورچی نیچے بیٹھ کر کھانا ڈالتا گیا، ہم کھاتے گئے اور کھانا کھا کر اٹھ گئے۔ مجھے کسی نے بتایا کہ باہر سکول کے بچے اور ان کے والدین آپ سے ملنے کے لیے ہیں۔ میں باہر آیا تو ایک درخت کے نیچے دو درجن کے قریب لوگ کھڑے تھے۔

جب میں ان کا شکریہ ادا کر کے واپس آ رہا تھا تو ہمارے کنٹینر سے کچھ مقامی لوگ کھانا کھا کر نکل رہے تھے۔ میں نے باورچی سے پوچھا کہ ’کیا یہ لوگ اپنا کھانا لے کر آئے تھے؟‘

وہ بولا: ’نہیں۔‘

میں نے کہا کہ ’تم شوربے میں پانی، نمک اور مرچ ڈال ڈال کر ان کو کھلاتے جا رہے ہو۔ اس سے ہماری بدنامی ہو گی۔‘

جواب میں باورچی نے مجھے اپنی جگہ فرش پر بٹھایا اور کہا کہ ’دیگچی میں چمچہ ہلائیں۔ میں نے چمچہ ہلایا تو دیگچی مرغی کی بوٹیوں سے اتنی بھری ہوئی تھی کہ چمچہ نہیں ہل رہا تھا۔ تب باورچی بولا کہ ’ابھی تک 183 لوگ کھانا کھا چکے ہیں اور کھانا ویسے کا ویسا ہی ہے۔‘

ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ ’اللہ تعالیٰ کا نظام ایسا ہے کہ جب آپ اس پاک وطن کے دفاع کے لیے ایک قدم بڑھاتے ہیں تو وہ چار قدم آگے بڑھ کر آپ کی مدد کرتا ہے۔‘

عباس اطہر نے اپنے کالم میں اس واقعے پر تبصرہ کیا: ’کوئی شک نہیں ڈاکٹر ثمر مبارک مند ایٹمی سائنس دان ہیں۔ اپنی آنکھوں سے یہ واقعہ دیکھنے کے بعد شاید وہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہوں کہ لمبے چوڑے آلات اور لیبارٹریاں وغیرہ استعمال کرنے کی بجائے وہ کوئی ایسی دیگچی بھی تلاش کر سکتے تھے جس سے بنا بنایا ایٹم بم نکل آئے!‘

شاہ جی نے ڈاکٹر صاحب سے درد مندانہ اپیل کی کہ وہ یہ واقعہ اپنے تک ہی محدود رکھیں ورنہ آنے والی نسلوں سے کوئی ایسا سائنس دان بھی برآمد ہو سکتا ہے جو ٹوکری کے نیچے مرغی کا انڈا رکھے اور باہر نکالنے پر وہ ایٹم بم بن چکا ہو۔

ایک پرانا لطیفہ یاد آیا ہے، جو حسب حال ہے کہ دوسری جماعت کے طالب علم بچے نے اپنی ماں سے پوچھا کہ وہ دنیا میں کیسے آیا؟ ماں نے اسے بتایا کہ ’ایک رات آسمان سے فرشتہ اترا اور تمہیں ہمارے حوالے کر کے چلا گیا۔‘

بچے نے اپنے چھوٹے بھائی کے بارے میں بھی ایسا ہی سوال کیا۔ ماں نے کہا کہ ’ایک صبح ہم لوگ سو کر اٹھے تویہ ہمارے بیڈ پر لیٹا انگوٹھا چوس رہا تھا۔‘

بچے نے اپنی نوزائیدہ بہن کی آمد کا پوچھا تو ماں نے جواب دیا کہ ’اسے ایک بلی ہمارے گھر چھوڑ گئی تھی۔‘

بچے نے کچھ سوچتے ہوئے کہا ’اس کا مطلب ہے کہ ہم میں سے کوئی بھی فطری طریقے سے دنیا میں نہیں آیا!‘

ہم ایک ضعیف الاعتقاد قوم ہیں جسے خود فریبی سے شغف ہے۔ ہم علاج معالجے کے لیے تعویذ دھاگے، بچوں کی آمد کے لیے پیروں فقیروں کی مدد اور ایٹم بم بنانے کے لیے دیگچوں پریقین رکھتے ہیں۔ ہم نے تو ملکی مسائل کے حل کی خاطر بھی جادوئی دیگچیوں سے ایسے ایسے نسخہ ہائے کیمیا برآمد کیے ہیں جنہیں دیکھ کر دنیا حیران ہے۔ یہاں کوئی بھی حکومت فطری طریقے سے وجود میں نہیں آتی۔

اور تو اور ہمارے طاقتور ادارے بھی بیلٹ باکس کی بجائے اپنی دیگچیوں پریقین رکھتے ہیں۔ وہ ’آزادانہ و منصفانہ انتخابات‘ کے بعد ہرمرتبہ اپنی کسی پراسراردیگچی سے قابل اور دیانتدار نمائندے برآمد کرتے ہیں۔ پھرکچھ عرصے بعد انہیں واپس اسی دیگچی میں بند کر کے کسی اور جادوئی دیگچی سے کوئی ایوب خان، ضیاء الحق یا پرویز مشرف نکال کر اصلاح احوال کی پرانی مشق ستم دہرانے لگتے ہیں۔

پارلیمانی نظام کی ایسی ہی ایک پراسرار دیگچی سے برآمد ہونے والی پی ٹی آئی کی قابل اور دیانتدار حکومت کو بمشکل آٹھ ماہ ہی ہوئے ہیں مگرپردۂ غیب کی کسی دیگچی میں صدارتی نظام کا انڈا ابلنے کی صدائیں آ رہی ہیں۔

عباس اطہر کے خدشات کے عین مطابق صدارتی نظام کا یہ انڈا کسی بھی وقت ایٹم بم کی صورت دیگچی سے برآمد ہو کر پھٹ سکتا ہے اور جو ملکی مسائل بحثیت وزیراعظم عمران خان کے شکنجے سے بچ نکلے ہیں، وہ صدر مملکت کے طور پر ان کا قلع قمع کر دیں گے، ملک میں ایک مرتبہ پھر دودھ اورشہد کی نہریں بہنے لگیں گی، جیسے ایوب خان کی صدارت اور ضیاء الحق اورپرویزمشرف کی پارلیمانی آئین کی دیگچی سے نکلنے والی صدارتوں کے دوران بہتی رہی ہیں۔

بقول ڈاکٹر ثمرمبارک، اللہ تعالیٰ کا نظام ایسا ہے کہ جب آپ اس پاک وطن کے دفاع کے لیے ایک قدم بڑھاتے ہیں تو وہ چار قدم آگے بڑھ کر آپ کی مدد کرتا ہے۔

.............................

نوٹ: مندرجہ بالا تحریر مصنف کی ذاتی آرا پر مبنی ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر