وزیراعظم کا نیا تہلکہ

اگر حکومت اچھے اور عہد وفا نبھانے والے عناصر کی فہرست جاری کر دے تو پاکستان کے صحافیوں کو بھی رپورٹنگ میں آسانی ہو گی اور وہ انجانے میں ریاست سے منظور شدہ اچھے شہریوں کی خبروں کو روک کر اپنے لیے خواہ مخواہ کے مسائل پیدا نہیں کریں گے۔

وزیراعظم کے بیان اور ان کی کابینہ کے ممبران کی وضاحتوں کے بعد تمام دوسرے کالعدم گروپوں کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے(فائل فوٹو: اے ایف پی)

کسی بھی اہم حساس قومی معاملے کے بارے میں رائے قائم کرنے اور اس کے تجزیے کے لیے معلومات کی بنیاد قوی ہونی چاہیے۔

اکثر معلومات جلدی پرانی ہو جاتی ہیں۔ بالخصوص ہمارے پیارے ملک میں جہاں ہر وقت کچھ نہ کچھ ہوتا رہتا ہے۔ پچھلے ہفتے کی سب سے بڑی خبر وزیراعظم پاکستان عمران خان کا ترکی کے ٹیلی وژن کو انٹرویو میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے متعلق دھماکہ خیز انکشاف تھا۔ چونکہ یہ کوئی عام روزمرہ کا پالیسی بیان نہیں ہے لہذا اس کا خلاصہ کرنے کی بجائے اس کا لفظ بہ لفظ اردو ترجمہ پڑھنا ضروری ہے تاکہ اس کی اہمیت مکمل طور پر واضح ہو جائے۔

وزیر اعظم عمران خان: درحقیقت، میرے خیال میں پاکستانی طالبان کے کچھ گروپ دراصل ہماری حکومت سے امن کے لیے، مفاہمت کے لیے بات کرنا چاہتے ہیں اور ہم کچھ گروپوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

اینکر: کیا آپ تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں؟

وزیر اعظم عمران خان: ہاں۔ مختلف گروپ ہیں جنہوں نے مل کر ٹی ٹی پی بنائی ہے۔ ہم ان میں سے کچھ گروپوں کے ساتھ بات چیت کر رہے ہیں۔

اینکر: ہتھیار ڈالنے پر یا مفاہمت کے لیے؟

وزیراعظم عمران خان: مفاہمتی عمل کے ذریعے۔

اینکر: کیا افغان طالبان اس عمل میں آپ کا ساتھ دے رہے ہیں؟

وزیر اعظم عمران خان: ہاں، اس ضمن میں کہ بات چیت افغانستان میں ہو رہی ہے۔

اینکر: چنانچہ حکومت پاکستان اور کالعدم تحریک طالبان پاکستان یا کالعدم تحریک طالبان کے کچھ گروپوں کے ساتھ بات چیت جاری ہے کہ وہ ہتھیار چھوڑ دیں۔

وزیر اعظم عمران خان : ہاں، اس کے بعد ہم ان کو معاف کر دیں گے اور وہ وہ بطور عام شہری رہ سکتے ہیں۔

اینکر: یہ خاموش انقلاب ہے وزیر اعظم عمران خان۔ کیا آپ حکومت پاکستان اور ٹی ٹی پی کے درمیان مفاہمت یا کسی ڈیل کی امید رکھتے ہیں؟

وزیر اعظم عمران خان: ہاں، ہاں۔ میں فوجی حل پر یقین نہیں رکھتا، میں فوجی حل کے خلاف ہوں۔ بطور سیاست دان میں افغانستان کیس میں ہمیشہ سیاسی مذاکرات کے ذریعے معاملے کے حل پر یقین رکھتا تھا۔

 اینکر: اگر تحریک طالبان پاکستان مذاکرات کے ذریعے سمجھوتہ چاہتی ہے تو پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حملے کیوں کر رہی ہے؟

وزیر اعظم عمران خان: میرا خیال ہے کہ وقتی طور پر حملوں میں شدت آئی ہے لیکن ہم مذاکرات کر رہے ہیں، آخر میں مذاکرات کا شاید کوئی نتیجہ نہ نکلے یا کوئی سمجھوتہ نہ ہو لیکن ہم مذاکرات کر رہے ہیں۔

یہ تو ہوا وزیراعظم کا بیان جس نے پاکستانی قوم کی طرح انٹرویو لینے والے کو بھی ششدر کر دیا۔ اس کی پھٹی آنکھیں اور چہرے کے تاثرات بتا رہے تھے کہ وہ جو سن رہا ہے اس پر اس کو یقین کرنے میں مشکل آ رہی ہے۔ ایک ایسی قوم جس نے 20  سال ساری دنیا کو دہشت گردی کے خلاف قابو پانے کی اندرونی کاوش کو بطور ماڈل پیش کیا ہے، جس کے رہنماؤں نے سینکڑوں مرتبہ اپنے ہزاروں شہیدوں، لاکھوں زخمیوں اور اربوں ڈالر کے نقصان کو عزم کی ایک ناختم ہونے والی داستان کے طور پر دہرایا ہے، اس کا وزیراعظم اس تمام عبارت کو مٹا کر ایک نئی تحریر سامنے لا رہا ہے جس کے پیش نظر دو دہائیوں میں کیا ہوا تمام کام ایک بھیانک اور افسوسناک غلطی کے علاوہ اور کچھ نہیں لگتا۔

وزیراعظم عمران خان کے بیان کے بعد وزیر اطلاعات و نشریات کو اس کی تشریح کی ذمہ داری سونپی گئی اور جیسا کہ صنف تشریح کی خصلت ہے اس نے وضاحت کے ضمن میں درجنوں ایسے نکات کا بھی اضافہ کر دیا جن کا ذکر وزیراعظم نے اپنے انٹرویو میں نہیں کیا۔

چوہدری فواد نے کہا: ’وزیر اعظم پاکستان کے بیان کو لے کر کافی گفتگو ہو رہی ہے، ضروری ہے کہ اس کا ایک پس منظر آپ کے سامنے رکھا جائے۔ ریاست پاکستان ایک آگ اور خون کے دریا سے ہو کر نکلی ہے، ہم نے ہزاروں لوگوں کی قربانیاں دی ہیں، ان قربانیوں کے نتیجے میں ہم نے پاکستان سے جہاں القاعدہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کو شکست دی وہیں بھارت کی ریشہ دوانیوں کو مکمل طور پر ختم کیا۔ الحمداللہ پاکستان پہلے سے زیادہ مضوط و پرعزم کھڑا ہے، اب ضرورت ہے آگے چلنے کی۔ ریاست کی پالیسیاں ایک مخصوص پس منظر میں بنتی ہیں، مخصوص حالات میں بنتی ہیں، انہی مخصوص حالات میں خاندان اور بےشمار لوگ جو پاکستان کے ساتھ وفاداری کا عہد نہیں نبھا سکے، وہ یہ عہد نبھانے واپس آنا چاہتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بلوچستان میں تین ہزار سے زیادہ وہ لوگ جو ناراض تھے جو بھارت کی ریشہ دوانیوں کا شکار ہوئے وہ واپس آچکے ہیں، اسی طریقے سے کالعدم ٹی ٹی پی کے مختلف گروہ ہیں، ان گروہوں میں ایسے لوگ بھی ہیں جو پاکستان کے ساتھ اپنی وفاداری کا عہد نبھانا چاہتے ہیں اور ایک صلح جو، امن پسند اور آئین کو مان کر آگے چلنے کا پیمان کرنا چاہتے ہیں۔ ہمارا ماننا یہ ہے کہ ایسے لوگوں کو ریاست کو یہ موقع دینا چاہیے کہ وہ زندگی کے دھارے میں واپس آ سکیں۔ وزیر اعظم نے جو آج اصول وضع کیے ہیں جن کے اوپر ہم آگے بڑھنا چاہتے ہیں  وہ یہی اصول ہیں کہ ہم اپنے آئین و قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے ان لوگوں کو جو اپنے مخصوص حالات  کے پیش نظر پاکستان کے راستے سے جدا ہوگئے تھے، واپس راستے پر لاسکیں اور وہ پاکستان کے ایک عام شہری کی حیثیت سے اپنی زندگی گزار سکیں۔‘

اس تشریح کے بعد تجزیاتی ضرورت بہت کم رہ جاتی ہے۔ واضح ہے کہ اب ریاست اور حکومت پاکستان نے ایک نیا فیصلہ کرلیا ہے بلکہ عمل درآمد کرتے ہوئے اس فیصلے کے نتائج کے قریب پہنچے ہوئے ہیں۔ اس نئے استقلال کی راہ میں ہر قسم کی رکاوٹ کو عبور کرنے کا تہیہ بھی کیا جا چکا ہے۔ کیوں کہ عوام اور ان کے نمائندگان دہشت گرد اور عام شہری جیسی اصطلاحات کی تعریف کے بارے میں ذہنی الجھن کا شکار ہیں، لہذا یہ بہت ضروری ہے کہ یہ واضح کر دیا جائے کہ تحریک طالبان کے کن گروپوں سے ریاست پاکستان کے کون سے نمائندے کب سے بات کر رہے ہیں اور اس بات چیت کے ذریعے ابھی تک کیا نتائج حاصل ہوئے ہیں کہ وہ اتنے پر امید ہیں کہ بین الاقوامی ردعمل اور پاکستان کے ایف اے ٹی ایف جیسے چیلنجز بھی ان کے پیش نظر نہیں رہے۔

اگر حکومت اچھے اور عہد وفا نبھانے والے عناصر کی فہرست جاری کردے تو پاکستان کے صحافیوں کو بھی رپورٹنگ میں آسانی ہوگی اور وہ انجانے میں ریاست سے منظور شدہ اچھے شہریوں کی خبروں کو روک کر اپنے لیے خواہ مخواہ کے مسائل پیدا نہیں کریں گے۔

پولیس کے سپاہیوں اور افسران و دیگر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ممبران کو بھی پتہ چل جائے گا کہ کس کو پکڑنا ہے، کس سے لڑنا ہے اور کس کی امامت میں نماز پڑھنی ہے۔

وزیراعظم کے بیان اور ان کی کابینہ کے ممبران کی وضاحتوں کے بعد تمام دوسرے کالعدم گروپوں کے بارے میں پالیسی پر نظر ثانی کی گنجائش پیدا ہوگئی ہے، قوم کو وزیراعظم کے کسی غیر ملکی چینل کو دیے گئے اگلے انٹرویو کا انتظار کرنا ہو گا تاکہ وہ جان پائے کہ ٹی ٹی پی کے بعد دوسری کون سی تنظیمیں اس سہولت سے استفادہ کر پائیں گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ