ٹی ٹی پی آج کہاں کھڑی ہے؟

’افغانستان میں افغان طالبان کو اقتدار میں حصہ ملتا ہے تو اس سے پاکستانی طالبان کی طاقت پھر سے بڑھ سکتی ہے اور وہ دوبارہ کم بیک کرسکتے ہیں۔‘

کامیاب فوجی کارروائیوں نے تحریک طالبان کو کافی کمزور کیا ہے (اے ایف پی)

پاکستان میں آرمی پبلک سکول پر حملے اور اس طرح دیگر بڑی دہشت گرد کارروائیوں کی ذمہ داری قبول کرنے والی کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان کچھ عرصے سے اپنے اندرونی اختلافات اور فوجی آپریشنز کی وجہ سے کافی کمزور ہو چکی ہے۔ تاہم اس کے باوجود یہ ملک کے لیے بدستور ایک مستقل درد سر اور خطرے کی علامت سمجھی جاتی ہے۔

تقریباً 13 سال قبل بیت اللہ محسود کی سربراہی میں وجود میں آنے والی تحریک طالبان  پاکستان لگ بھگ سات سال تک ایک فعال تنظیم رہی۔ اس دوران اس نے قبائلی علاقوں سے لے کر کراچی تک سکیورٹی فورسز اور عام مقامات پر لاتعداد حملے کیے۔

 ٹی ٹی پی میں اندرونی اختلافات کی خبریں پہلی مرتبہ اس وقت سامنے آئیں جب 2009 میں بیت اللہ محسود ایک امریکی ڈرون حملے میں نشانہ بنے۔ اس وقت محسود طالبان کے ولی الرحمٰن اور حکیم اللہ محسود گروپوں میں تنظیم کے معاملے پر اختلافات پیدا ہوئے لیکن تحریک کے سینیئر ارکان کی کوششوں سے یہ معاملہ ابتدا ہی میں حل کر لیا گیا۔ اس وقت تک ٹی ٹی پی کئی چھوٹی بڑی شدت پسند تنظیموں اور گروہوں پر مشتمل تھی اور ان میں بیشتر ’فٹ سولجر‘ محسود قبیلے کے نوجوان تھے۔

تحریک طالبان کے اس وقت کے ترجمان مولوی عمر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے بات کرتے ہوئے اکثر دعویٰ کرتے تھے کہ ٹی ٹی پی کی چھتری تلے لگ بھگ 40 کے قریب چھوٹی بڑی تنظیمیں کام کر رہی ہیں۔

تحریک طالبان پر تحقیق کرنے والے سویڈن میں مقیم نوجوان محقق عبد السید کا کہنا ہے کہ ’ٹی ٹی پی کا وجود جب عمل میں لایا گیا تو اس وقت تنظیم کو ابتدائی طاقت فرقہ وارانہ دہشت گردی میں ملوث کالعدم سنی تنظیموں اور ریاست کے قریب سمجھے جانے والے کشمیری جہادی عسکریت پسندوں نے فراہم کی جنہوں نے تحریک میں شامل ہو کر بڑی بڑی کارروائیوں میں حصہ لیا۔‘

تاہم تنظیم کو سب سے بڑا دھچکا اس وقت لگا جب حکیم اللہ محسود امریکی ڈرون حملے میں مارے گئے۔ اس کے بعد تحریک اختلافات کھل کر سامنے آئے۔

یہ پہلا موقع تھا کہ جب تنظیم میں محسود جنگجوؤں کے علاوہ غیر محسود کمانڈروں نے بھی سربراہی کے لیے اپنے نام پیش کر دیے ۔ یہ بھی پہلی مرتبہ دیکھنے میں آیا جب سوات کے مولانا فضل اللہ کی صورت میں ایک غیر محسود سربراہ نے تحریک کی بھاگ دوڑ سنبھالی۔

لیکن فضل اللہ کے امیر بننے سے قبل ہی تحریک کئی دھڑوں میں بٹ چکی تھی۔ تنظیمی اختلافات کے باعث مہمند اور اورکزئی ایجنسی کی دو فعال اور بڑی تنظیموں نے ٹی ٹی پی سے علحیدگی اختیار کرکے الگ الگ تنظمیں بنا لیں جبکہ بعد میں ان میں سے کچھ کمانڈروں نے دولت اسلامیہ میں شمولیت اختیار کر لی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

محقیق عبد السید کے مطابق ’ٹی ٹی پی میں حکومت سے مذاکرات کے معاملے پر بھی سنگین اختلافات پیدا ہوئے اور یہاں سے بعض کمانڈروں نے تنظیم چھوڑنے کے لیے ذہن سازی شروع کر دی تھی۔‘

جون 2014 میں جب آپریشن ضرب عضب کا آغاز ہوا تو کئی کالعدم تنظیمیں فوج کی موثر کارروائیوں کا مقابلہ نہیں کرسکیں جس کے نتیجے میں سینکڑوں جنگجو سرحد پار کر کے افغانستان چلے گئے۔ آرمی پبلک سکول اور باچا خان یونیورسٹی پر ہونے والے دونوں حملے کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ان کی منصوبہ بندی سرحد پار سے ہوئی جن کی ذمہ داری بھی ٹی ٹی پی نے قبول کی تھی۔

شدت پسند تنظیموں کی طویل عرصے سے رپورٹنگ کرنے والے سینیئر صحافی طاہر خان کا کہنا ہے کہ آپریشن ضرب عضب کے بعد ٹی ٹی پی کا پاکستان میں موجود تنظیمی ڈھانچہ تقریباً ختم ہو کر رہ گیا ہے جبکہ یہاں ان کی حملہ کرنے کی صلاحیت میں بھی بہت حد تک کم ہوئی ہے، تاہم خطرہ اب بھی موجود ہے بلکہ باالفاظ دیگر افغانستان میں تنظیم کی موجودگی ملک کے لیے کسی حد تک زیادہ خطرناک سمجھی جاتی ہے۔

بیشتر تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ ٹی ٹی پی کے لیے محاذ پر لڑنے والے زیادہ تر جنگجو آپریشنوں میں مارے گئے یا گرفتار ہوئے جس کی وجہ سے ان کی عددی قوت بھی کم ہو گئی ہے۔

لیکن افغانستان پر گہری نظر رکھنے والے سینیئر صحافی اور مصنف عقیل یوسفزئی اس رائے سے اختلاف کرتے ہیں کہ ٹی ٹی پی حالیہ کچھ عرصے سے کمزور ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر ’افغانستان میں افغان طالبان کو اقتدار میں حصہ ملتا ہے تو اس سے پاکستانی طالبان کی طاقت پھر سے بڑھ سکتی ہے اور وہ دوبارہ کم بیک کرسکتے ہیں۔‘

انہوں نے کہا کہ ٹی ٹی پی کا ایک مضبوط تنظیمی ڈھانچہ بدستور موجود ہے اور ان کے پاس جنگجوؤں کی بھی کوئی کمی نہیں ہے لہذا پاکستانی ریاست کے لیے یہ خطرہ بدستور موجود ہے۔

  یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ ٹی ٹی پی نے امریکہ اور افغان طالبان کے درمیان ہونے والے حالیہ امن معاہدے کے بعد ایک دستاویزی فلم جاری کی تھی جس میں اس معاہدے کو موجودہ دور کے جہادیوں کی بڑی فتح قرار دیا گیا تھا۔ اس ویڈیو کے جاری کرنے سے بظاہر لگتا ہے کہ تنظیم بدستور خود کو افغان طالبان کے ساتھ سمجھتی ہے، تاہم یہاں یہ سوال بھی اہم ہے کہ اگر افغانستان میں طالبان کو اقتدار میں حصہ ملتا ہے تو وہاں مقیم پاکستان مخالف شدت پسند تنظیموں کا مستقبل کیا ہوگا؟

یہاں یہ امر بھی اہم ہے کہ افغان طالبان نے امریکہ سے ہونے والے معاہدے میں اس بات کی یقین دہانی بھی  کرائی ہے کہ امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغان سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں کی جائے گی۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ