ادب کا نوبیل انعام تنزانیہ کے عبدالرزاق گرنہ کے نام

دلچسپ بات یہ ہے کہ ادب کے نوبیل انعام کے لیے سٹہ بازوں اور دیگر ماہرین کی فہرستوں میں گرنہ کا کہیں ذکر موجود نہیں تھا۔

نوبیل کمیٹی کے مطابق جرنہ کے کام میں پناہ گزینوں کے مسائل کی تفہیم پائی جاتی ہے (کری ایٹو کامنز)

تنزانیہ کے ناول نگار عبدالرزاق گرنہ کو 2021 کے نوبیل انعام سے نوازا گیا ہے۔

73 سالہ عبدالرزاق گرنہ انگریزی زبان میں لکھتے ہیں اور ان کا سب سے مشہور ناول ’پیراڈائز‘ ہے جسے 1994 میں بکر پرائز کے لیے شارٹ لسٹ کیا تھا، البتہ اسے یہ انعام مل نہیں سکا تھا۔

اس کے علاوہ ان کا ناول ’بائی دا سی‘ 2001 میں بکر پرائز کے لیے جب کہ ’ڈیزرشن‘ 2005 میں وائٹ بریڈ انعام کی لانگ لسٹ میں شامل ہوا۔

گرنہ کل دس ناول لکھ چکے ہیں۔

نوبیل کمیٹی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ گرنہ کو انعام ’نوآبادیاتی نظام کے اثرات کی بےلوچ اور ہمدردانہ تفہیم اور ثقافتوں اور براعظموں کے درمیان پناہ گزینوں کی تقدیر‘ پیش کرنے پر دیا گیا۔

نوبیل کمیٹی نے یہ بھی کہا کہ گرنہ کے تمام کام میں پناہ گزینوں کے مسائل کا ادراک ملتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

دلچسپ بات یہ ہے کہ ادب کے نوبیل انعام کے لیے سٹہ بازوں اور دیگر ماہرین کی فہرستوں میں گرنہ کا کہیں ذکر موجود نہیں تھا۔ فرانسیسی ادیبہ این ارنو اکثر فہرستوں میں پہلے نمبر پر تھیں، جب کہ این کارسن، موراکامی اور مارگریٹ ایٹ وڈ وغیرہ اس دوڑ میں شامل تھے۔ 

نوبیل کمیٹی پر حالیہ کئی برسوں سے دباؤ بڑھتا جا رہا تھا کہ وہ یورپ اور سفید فام ادیبوں سے باہر نکل کر دنیا کے دوسرے خطوں کے لوگوں کو بھی انعام دینے پر غور کریں۔

وہ نجیب محفوظ، نیڈین گورڈمر، وول سوینکا کے بعد تیسرے افریقی ہیں جنہوں نے ادب کا نوبیل انعام جیتا ہے۔

تاہم یہ بات قابلِ غور ہے کہ پانچ میں سے چار نوبیل انعام یافتگان انگریزی کے ادیب ہیں، جب کہ نجیب محفوظ عربی کے ادیب ہیں جو افریقی نہیں بلکہ مشرقِ وسطیٰ کی زبان سمجھی جاتی ہے۔

اس کا مطلب یہ ہوا کہ نوبیل انعام کی 118 سالہ تاریخ میں کسی افریقی زبان کو ادب کا نوبیل انعام نہیں مل سکا۔

زیادہ پڑھی جانے والی ادب