ناروے میں ایک شخص نے تیر کمان سے پانچ افراد کو ہلاک کردیا

ناروے پولیس کے مطابق یہ حملے کونگز برگ کے ایک بڑے علاقے میں آدھے گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہے۔

ناروے میں پولیس کے مطابق ایک شخص نے کونگز برگ میں تیر کمان سے حملہ کرکے پانچ افراد کو ہلاک کر دیا ہے۔

پولیس کا کہنا ہے کہ یہ واقعہ بدھ کی شام دارالحکومت اوسلو سے 68 کلومیٹر (42 میل) جنوب مغرب میں واقع قصبے کے مختلف مقامات پر پیش آیا، جس میں ایک آف ڈیوٹی پولیس افسر سمیت دو افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔

ڈسٹرکٹ پولیس چیف اوئے ونڈ آس کا ایک بیان میں کہنا تھا کہ ’یہ انتہائی سنگین صورت حال ہے جس نے یقیناً کونگز برگ اور یہاں رہنے والوں پر گہرا اثر ڈالا ہے۔‘

ناروے کے ایک اخبار نے پولیس کے حوالے سے بتایا ہے کہ یہ حملے کونگز برگ کے ایک بڑے علاقے میں آدھے گھنٹے سے زائد وقت تک جاری رہے۔

پولیس نے بتایا کہ حملہ آور کو گرفتار کر لیا گیا ہے، جس کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ اکیلا ہی حملوں میں ملوث تھا۔

تاہم تاحال یہ واضح نہیں ہو سکا ہے کہ اس حملے کے پیچھے وجوہات کیا تھیں۔

پولیس چیف نے کہا کہ حملے میں تیر کمان کا استعمال کیا گیا ہے جبکہ پولیس اس بات کی بھی تفتیش کر رہی ہے کہ حملے میں دیگر ہتھیار بھی استعمال کیے گئے یا نہیں۔

حملہ آور کا تعلق ڈنمارک سے بتایا گیا ہے، جس کے بارے میں پولیس نے وضاحت کی ہے کہ انہوں نے حملہ آور کی قومیت کے بارے میں معلومات اس لیے فراہم کی ہیں کیوں کہ سوشل میڈیا پر ایک برادری کے بارے میں افواہیں پھیلائی گئیں، جو حملے میں ملوث نہیں ہے۔

واضح رہے کہ بعض سوشل میڈیا صارفین نے کسی مسلم ملک کے باشندے پر اس حملے میں ملوث ہونے کا شبہہ ظاہر کیا تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ناروے کے نو منتخب وزیراعظم جوناس گہر سٹوئر، جو گذشتہ ماہ عام انتخابات جیتنے کے بعد آج (جمعرات کو) اقتدار سنبھالنے والے ہیں، نے کہا کہ انہیں سبکدوش ہونے والی حکومت نے اس حملے سے باخبر رکھا ہے۔

سٹوئر نے خبر رساں ادارے این ٹی بی کو ایک بیان میں کہا: ’ہم نے کونگز برگ میں ایک بھیانک اور سفاکانہ عمل کا مشاہدہ کیا ہے۔‘

اس حوالے سے ایک خاتون نے بتایا کہ انہوں نے گھر جاتے ہوئے الارم سنا تھا۔

میرٹ ہوفل نامی خاتون نے اخبار کو بتایا: ’میں نے پولیس افسران کو دیکھا جن میں سے ایک نے اپنے ہاتھ میں کئی تیر پکڑے ہوئے تھے۔‘

تفتیش کار اس بات پر غور کر رہے ہیں کہ آیا یہ حملے دہشت گردی کی کارروائی ہے یا نہیں اور ساتھ ہی کہا کہ وہ اس واقعے کی مزید تفصیلات بعد میں جاری کریں گے۔

ملزم کے وکیل نے بتایا کہ پولیس حملہ آور سے پوچھ گچھ کر رہی ہے اور وہ تعاون کر رہا تھا۔

کونگز برگ کی آبادی تقریباً 28 ہزار افراد پر مشتمل ہے۔

یاد رہے کہ اس سے قبل 2011 میں ناروے کی تاریخ کے بدترین حملے میں انتہائی دائیں بازو کے انتہا پسند اینڈرس بیرنگ بریوک نے 77 افراد کو ہلاک کیا تھا، جن میں سے اکثر کیمپنگ کرنے والے نو عمر طلبہ اور بچے تھے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا