’پیرس حملے ذاتی نہیں تھے، مقصد داعش کے خلاف کارروائی کا بدلہ تھا‘

2015 میں پیرس میں سلسلہ وار دہشت گرد حملوں میں ملوث زندہ بچ جانے والے واحد ملزم نے مقدمے کے دوران کہا ہے کہ حملے میں ہلاک ہونے والے 130 شہریوں سے کوئی ذاتی دشمنی نہیں تھی، بلکہ مقصد فرانس سے انتقام تھا۔

ٹرائل کا سامنا کرنے والے صالح عبدالسلام کا آرٹسٹک سکیچ (فوٹو: روئٹرز)

چھ سال قبل فرانس کے دارالحکومت پیرس میں 130 افراد کو قتل کرنے والے انتہا پسند گروپ کے واحد زندہ بچ جانے والے رکن نے کہا ہے کہ یہ حملے ’ذاتی‘ نہیں تھے بلکہ شام اور عراق میں فضائی حملوں کا بدلہ لینے کے لیے کیے گئے تھے۔

صلاح عبدالسلام اس 10 رکنی گروپ کا حصہ تھے جس نے 2015 میں فرانس کے دارالحکومت میں دہشت گرد حملے کیے۔ اس گروپ میں سے زیادہ تر ارکان فرانسیسی یا بیلجیئم نژاد تھے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق مقدمے کی سماعت کے دوران صلاح عبدالسلام نے اصرار کیا کہ شہریوں کی ہلاکتیں سابق صدر فرانسو اولاند کے اقدامات کا نتیجہ ہیں، جنہوں نے داعش کے خلاف فضائی حملوں کی اجازت دی تھی۔

صالح عبدالسلام نے کہا: ’ہم نے فرانس کا مقابلہ کیا، ہم نے فرانس پر حملہ کیا، ہم نے شہری آبادی کو نشانہ بنایا، لیکن یہ ان کے خلاف کوئی ذاتی بات نہیں تھی۔‘

انہوں نے مزید کہا: ’فرانسو اولاند جانتے تھے کہ وہ شام میں داعش پر حملے کی اجازے دے کر یہ خطرہ مول لے رہے تھے کہ یہ فیصلہ لینے سے فرانسیسی لوگ مر جائیں گے۔‘

12 نومبر 2015 کی شام، پیرس اور پڑوسی نواحی علاقے سینٹ ڈینس یکے بعد دیگرے متعدد حملوں کا نشانہ بنے تھے، جس کے نتیجے میں 130 افراد ہلاک اور مزید 350 زخمی ہوئے تھے۔

تین خودکش حملہ آوروں نے پہلے فٹ بال میچ کے دوران سٹینڈز میں داخلے میں ناکامی کے بعد سٹیڈیم کے باہر شائقین کو نشانہ بنایا۔

اس کے بعد حملہ آوروں نے پیرس کے پرہجوم کیفے اور ریستورانوں میں لوگوں پر فائرنگ کی جبکہ ایک نے خودکش حملہ بھی کیا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حملہ آوروں کے ایک اور گروہ نے باتاکلان تھیٹر میں ایک کنسرٹ کے دوران بڑے پیمانے پر فائرنگ کی، جس کے بعد ان کی پولیس کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔

عبدالسلام پر الزام ہے کہ انہوں نے رات کو حملہ آوروں کو گاڑی میں سٹیڈیم کی طرف پہنچایا تھا اور اسی رات انہوں نے حملہ کرنے کا منصوبہ بنایا تھا۔

قیاس کیا جاتا ہے کہ یا تو وہ پیچھے ہٹ گئے تھے یا ان کی خودکش جیکٹ خراب ہو گئی تھی، جو بعد میں پولیس کو ایک کوڑے دان سے ملی تھی۔

ان پر الزام ہے کہ وہ حملوں کے بعد اپنے آبائی شہر برسلز فرار ہونے سے پہلے پیرس کے جنوب میں روپوش تھے۔ انہیں چار ماہ بعد گرفتار کیا گیا۔

مارچ 2016 میں ان کی گرفتاری کے کچھ دن بعد، برسلز کے میٹرو نیٹ ورک اور  ایئرپورٹ پر سلسلہ وار بم دھماکے ہوئے، جن کے نتیجے میں 32 شہری اور تین حملہ آور ہلاک اور 300 سے زائد افراد زخمی ہوئے تھے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ حملہ آور اسی حملہ آور سیل کا حصہ تھے جس نے پیرس کو نشانہ بنایا تھا۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا