دیہی خواتین کے مسائل کا حل کیسے ممکن؟ 

دیہی خواتین کا معاشی سرگرمیوں میں حصہ اچھا خاصا ہے لیکن چونکہ اکثریتی سطح پر یا تو یہ کام بلامعاوضہ ہیں یا اپنے گھر یا خاندان کے ساتھ مددگار کے طور پر سمجھا جاتا ہے جس کا نقصان یہ ہے کہ ان کا معاشی کردار اعدادوشمار میں نہیں گنا جاتا۔

دیہی خواتین کے معاشی کردار کی پذیرائی کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کے حل اور ترقی کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے(اے ایف پی)

2018کی مردم شماری کے مطابق پاکستان کی کل آبادی 208 ملین ہے جس میں خواتین 101 ملین ہیں، یعنی تقریبا نصف حصہ۔ اس آدھی آبادی کی تاہم اکثریت دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔

یہ خواتین بنیادی طور پر کاشت کاری، لائیو سٹاک مینجمنٹ، ماہی گیری اور دست کاری جیسی معاشی سرگرمیوں میں مصروف عمل نظر آتی ہیں۔ تاہم آج بھی زیادہ تر دیہی خواتین ان شعبوں میں بلامعاوضہ، خاندانی مزدور یا کم اجرت پر کام کرتی ہیں۔

دیہی خواتین کو جدید ٹیکنالوجی، عوامی خدمات (صحت، تعلیم، تربیت اور ٹرانسپورٹ) تک کم رسائی حاصل ہے اور اگر کہیں کہیں پر کچھ سہولیات میسر ہیں تو وہ یا تو موثر نہیں ہیں، یا وہاں پر خواتین کو سماجی تحفظ حاصل نہیں ہے۔ اکثر اوقات صنفی بنیاد پر تفریق کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔

اعداوشمار سے ثابت ہے کہ دیہی خواتین کا معاشی سرگرمیوں میں حصہ اچھا خاصا ہے لیکن چونکہ اکثریتی سطح پر یا تو یہ کام بلامعاوضہ ہیں یا اپنے گھر یا خاندان کے ساتھ مدد گار کے زمرے میں شامل سمجھا جاتا ہے جس کا نقصان یہ ہے کہ آج بھی دیہی خواتین کا معاشی کردار اور حصہ حکومتی اعدادوشمار میں نہیں گنا جاتا۔

دوسرا المیہ یہ ہے کہ دیہی خواتین، کام کے حوالے سے آج بھی دوہرے بوجھ کا شکار ہیں۔ اکثر دیہی خواتین غیررسمی معاشی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مزید سماجی اور گھریلو ذمہ داریاں بھی سرانجام دیتی ہیں جیسے کہ تولید، پانی اور ایندھن لانا، گھر، بچوں اور بڑوں کی نگہداش، رسم ورواج وغیرہ۔ ان تمام ذمہ داریوں اور معاشی عمل میں بھرپور کردار کے باوجود اکثر خواتین کے پاس جائیداد اور وسائل کی ملکیت کا اختیار نہیں ہے۔ چند خواتین کو اگر کہیں جائیداد کا حق مل بھی جاتا ہے تو اکثر ان کے اس حق کو چیلنج کیا جاتا ہے۔

ایسے میں اگر دیہی خواتین سماجی اور حکومتی سطح پر موجود وسائل یا سہولیات سے مستفید ہونا چاہیں تو اس میں سے اکثر تک یا تو ناکافی رسائی حاصل ہے اور یہ طریقہ کار اتنا مشکل کہ اس سے فائدہ لینا ایک عام خاتون کے بس کی بات نہیں۔

دیہی خواتین کے معاشی کردار کی پذیرائی کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل کے حل اور ترقی کے لیے کثیر الجہتی حکمت عملی کی ضرورت ہے اور اس میں خصوصی طور پر دیہی خواتین کی شمولیت کو ترجیح دینا ہوگی۔ ایک بات خوش آئند ہے کہ جب سے اقوام متحدہ نے دیہی خواتین کا بین الاقوامی دن ہر سال 15 اکتوبر کو منانے کی منظوری دی ہے تب سے اس موقع پر پاکستان میں سرکاری و غیر سرکاری سطح پر خواتین کے مسائل کو اجاگر کرنے اور ان کے مسائل کے حل کے لیے عوام اور ادارے کسی حد تک سرگرم عمل نظر آتے ہیں۔ تاہم اتنا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی دیہی خواتین کے معیار زندگی میں کوئی خاطر خواہ بہتری نہیں آئی۔

حقائق سے ثابت ہے کہ رابطہ کاری، تعلیم اور ہنر و مہارت کی تربیت، ویلیو ایڈڈ ورک ایڈیشنز، زمین کے مالکانہ حقوق، خوف و ہراسیت اور تشدد سے حفاظت اور سی پیک (CPEC) جیسے اہم منصوبے، دیہی خواتین کے لیے گیم چینجر ثابت ہوسکتے ہیں ۔یہ سب ممکن بنانے کے لیے اور دیہی خواتین کو ترقی کے دھارے میں موثر طور پر شامل کرنے کے لیے ٹھوس اقدامات اور منصوبوں میں درج ذیل اہم پہلووں کو ترجیحی بنیادوں پر توجہ دینا ہوگی۔ 

خواتین کے معاشی سرگرمیوں کی پذیرائی اور اس میں شمولیت کو مزیدکیسے موثر بنایا جائے؟

1. اس بات کو یقینی بنایا جائے کہ بطور چھوٹے پروڈیوسر خواتین کو پیداواری وسائل جیسے زمین، بیج، پانی اور جنگلات تک رسائی اور کنٹرول کے مساوی حقوق حاصل ہیں۔ خواتین کسانوں کو ریاستی زمین کی تقسیم میں شامل کیا جائے بشرط یہ کہ زمین قابل کاشت ہو اور زمین گرانٹ کے ساتھ وسائل پیکج بھی ہو۔

 2. اس بات کو یقینی بنائیں کہ خواتین کو مقامی طور پر تیار کردہ، غذائیت سے بھرپور اور کیمیائی خطرات سے پاک خوراک میسر ہو۔ اس میں حاملہ اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے خصوصی خوراک کے حقوق شامل ہونے چاہیں۔

3. خواتین کو زراعت سمیت تمام شعبوں مثال کے طور پر ماہی گیری، مویشیوں کی پیداوار، جنگلات اور ڈیری فوڈ پروڈکشن ورک فورس کے حصے کے طور پر مکمل پہچان اور پذیرائی دی جائے۔

4. کام کرنے والی دیہی خواتین کو پالیسی سطح پر اجتماعی شرکت کا حق دیا جائے تاکہ وہ مل کر اپنے مساوی مواقع، مساوی معاوضہ/تنخواہ، زچگی کی چھٹی اور فوائد، بچوں کی دیکھ بھال اور تولیدی صحت کی خدمات سے متعلق پالیسیوں پر اپنی رائے دینے اور اس کو موثر اور محفوظ بنانے کے قابل ہوں۔

5. وقت اور مزدور بچانے والی ٹیکنالوجیز دیہی خواتین کی فلاح و بہبود، کام کا بوجھ کم کرنے اور معاشی بااختیار بنانے میں اہم کردار ادا کرتی ہیں۔ ایسی ٹیکنالوجیز جو معلومات تک رسائی کو بہتر بناتی ہیں ان کے زرعی کام (فصلوں کی پیداوار، لائیو سٹاک مینجمنٹ) اور غیر زرعی روزگار خواتین کو دستیاب ہونا چاہیے اور ان کی ضروریات کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا جانا چاہیے۔

 6۔لیبر سیونگ ٹیکنالوجیز کے ذریعے گھریلو کام کا بوجھ کم کرنا، براہ راست خواتین کی صحت پر اثر انداز ہوتا ہے اور ملازمت، تعلیم اور مہارت کے مواقع تک رسائی نیز آرام اور تفریح ​​کے لیے وقت بڑھانے کا موقع فراہم کرتا ہے۔

7. موبائل فون کے استعمال میں تیزی سے اضافے نے دیہی مردوں اور عورتوں کے لیے معلومات اور ٹیکنالوجی تک بروقت اور کم لاگت سے موثر رسائی کے نئے مواقع کو جنم دیا ہے لہذا سادہ مقامی زبانوں میں معلومات کی فراہمی سے کسانوں کے کاروباری رویوں کو نئی ٹیکنالوجیز کے ذریعے مزید موثر بنایا جاسکتا ہے۔

8.کمیونٹی مراکز جو سیکھنے کے لیے سیٹلائٹ اور ٹیلی کمیونیکیشن کا استعمال کرتے ہیں وہاں پر دوردراز کے دیہی علاقوں کے خواتین کو زرعی توسیع، مٹی اور کیڑوں کے تجزیے اور صحت کی تشخیصی مہارت تک رسائی دی جائے۔ ان جدید طریقوں سے مختلف دیہات سے تعلق رکھنے والی خواتین کسانوں کو مصدقہ بیج اور دیگر ٹیکنالوجیز تک رسائی اور معلومات فراہم کی جائے۔ چھوٹے اور پسماندہ کسانوں اور خصوصی طور پر دیہی خواتین کو اس طرح کے توسیعی منصوبوں میں خصوصی طور پر شامل کیا جائے۔

صحت

1. بچوں، بوڑھوں اور کم اور درمیانی آمدنی والے طبقات میں اور زرعی کارکنوں کو صحت کی دیکھ بھال کے اخراجات کو کم کرنے کے لیے یونیورسل ہیلتھ کیئر فراہم کیا جائے۔

تعلیم

2. لڑکیوں اور لڑکوں کے لیے مفت اور لازمی تعلیم کی فراہمی کے لیے آرٹیکل 25A نافذ کیا جائے۔ بالغ خواتین کے لیے تعلیم بالغان  کے آؤٹ ریچ پروگراموں کو وسعت دی جائے۔

3. دیہی علاقوں میں لڑکیوں کے مڈل، سیکنڈری اور ہائیر سیکنڈری سکولوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے اور طالبات کو اپنے تعلیمی اداروں میں جانے کے لیے محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کی جائے۔

4۔ پاکستان کے اندر دستیاب جدید اور عمدہ ماڈلز کی حوصلہ افزائی کی جائے جن میں سیکھنے والے مراکز، نصاب اور تدریسی طریقہ کار ، اساتذہ کی تربیت شامل ہیں۔ 

5. تعلیمی بنیادوں کے لیے ایک منظم اور جامعہ فریم ورک بنایا جائے جو دیہی علاقوں کے لیے عوامی اور نجی اقدامات کی بنیاد پر قائم ہو۔ پرائیویٹ سیکٹر اور منافع بخش کمپنیوں کو غیرمنافع بخش دیہی سکولوں اور کالجوں میں سرمایہ کاری کے لیے ٹیکس کی مراعات سے جوڑا جائے۔

ہنر کی تربیت

6. صوبائی اور ضلعی حکومتوں کو دیہی خواتین کے لیے پیشہ ورانہ مہارتوں پر مبنی ڈپلوما کورسز شروع کرنے چاہیں جو مڈل یا میٹرک کے بعد سکول میں جاری نہیں رہتی ہیں۔

7. دیہی خواتین کے لیے زراعت اور مویشیوں کے کام کے مہارتوں کی تربیت کے ساتھ ساتھ غیر زرعی دیہی معیشت کے مہارتوں اور معلومات کے مواقع دیئے جایئں۔ دیہی خواتین کو اس وقت ایسی تربیتوں اور مہارتوں  کی ضرورت ہے جو ان کے کام سے متعلق نئی ٹیکنالوجیز تک رسائی فراہم کرے۔

مائیکرو فنانس اور انٹرپرینیورشپ

8. شواہد بتاتے ہیں کہ مالی شمولیت ایک ایسا ماحول پیدا کرتی ہے جو بہت سے SDGs کے حصول میں مدد کرتا ہے۔ تاہم دیہی خواتین کا مالیاتی خدمات تک رسائی اور استعمال کو آسان بنانے کے لیے مزید فعال اقدامات کی ضرورت ہے۔

9. موبائل والٹ، بلوں کی ادائیگی، بامعنی بچت، قرضہ جات اور انشورنس کی مصنوعات کو دیہی خواتین کی ضروریات اور حالات کے مطابق تیار کیا جانا چاہیے تاکہ ان کی بامقصد مالی شمولیت کو سپورٹ کیا جا سکے۔

10۔ موجودہ دیہی امدادی پروگراموں کا نیٹ ورک، جس کی دیہی خواتین تک رسائی ہے وہ دیہی خواتین کو بنیادی سمارٹ فون کی فراہمی کے ذریعے نئی ٹیکنالوجیز کو اپنانے کی حوصلہ افزائی کریں کیونکہ ٹیکنالوجیز میں جدتوں تک رسائی کے قابل ہونا اشد ضروری ہے اس سے کام، صحت، تعلیم اور دیگر مواقع تک رسائی کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔

11۔ پالیسی اور انتظامی سطح پر اصلاحات کی ضرورت ہے تاکہ زیادہ سے زیادہ دیہی خواتین اپنا کاروبار شروع کر سکیں۔ منصوبہ بندی اور پالیسی سازی کے ذریعے خواتین پر مرکوز فنانسنگ کو فروغ دیا جائے۔ پالیسی سازوں کو اس حقیقت کا علم ہے کہ زیادہ تر خواتین، خاص طور پر دیہی علاقوں سے، شرح سود (ان کے مذہبی عقائد کی وجہ سے) کے خلاف ہیں اور قرض کی منظوری میں شامل پیچیدہ عمل خواتین کی بطور کاروباری شرکت کو روکتا ہے۔ چونکہ روایتی بینکنگ اور فنانسنگ کے شرائط اور طریقہ کار قابل عمل آپشن کے طور پر کام نہیں کرتے۔ اس لیے خواتین کے لیے خصوصی اور آسان فنانسنگ حل کی ضرورت ہے۔ کاروبار کے لیے مالی امداد تک خواتین کی رسائی کو یکسر بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔

12۔ انتظامی مہارتوں کو بڑھانے اور موجودہ اور نئی خواتین کاروباری افراد کی اہم کاروباری مہارتوں کو فروغ دینے کے لیے خصوصی تربیت، جیسے ٹارگٹ کسٹمر، مارکیٹنگ ٹولز، مارکیٹنگ کے رجحانات سے ملنے والی مصنوعات تیار کرنا وغیرہ چھوٹے دیہی اور کاٹیج انڈسٹری سے وابستہ دیہی خواتین کے لیے انتظام کیا جانا چاہیے۔ جیسا کہ کڑھائی والے کپڑے، دست کاری وغیرہ یہ خواتین اپنی مصنوعات سے فائدہ نہیں اٹھا سکتیں کیونکہ وہ اپنے گاہکوں اور مارکیٹ کے رجحانات کو نہیں سمجھتیں۔

۱3۔ ملک اور خاص طور پر بڑے شہروں اور بیرون ملک اپنی مصنوعات کی مارکیٹنگ کو بہتر بنانے کے لیے نجی اور سرکاری شعبے کے درمیان باہمی تعاون کی ضرورت ہے۔ پہلے سے قائم دیہی خواتین کاروباری افراد کو سپلائی چین کا حصہ بننے میں مدد ملنی چاہیے۔ علاقائی پیداواری نیٹ ورکس کے ساتھ ان کا انضمام بھی اہم ہے۔ ٹریڈ ڈیولپمنٹ اتھارٹی آف پاکستان (TDAP) خواتین کاروباری افراد کو بین الاقوامی نمائشوں میں سبسڈی والے نرخوں پر شرکت کی حوصلہ افزائی کرے۔

14۔ پائیدار کاروبار کے لیے مطلوبہ مشینیں اور اوزار  کی بروقت دستیابی ضروری ہے۔ دیہی خواتین کے لیے مناسب سپلائی چین اور مضبوط مارکیٹ روابط کا طریقہ کار ہونا چاہیے تاکہ وہ مناسب/سستی قیمت پر مطلوبہ اشیا آسانی سے خرید سکیں۔

15۔ کاروباری نیٹ ورک خاص طور پر دیہی خواتین پر توجہ مرکوز کریں تاکہ دیہی خواتین کو سیکھنے اور ترقی کے مواقع مل سکے۔ نیٹ ورکنگ، کاروبار کو بڑھانے کا ایک بڑا ذریعہ ہیں جو باہمی روابط ،معلومات اور مواقع کا باعث بنتے ہیں۔

16۔ وفاقی اور مقامی حکومتیں پبلک خریداریوں میں دیہی خواتین کی قیادت میں کاروبار کے لیے کوٹہ مقرر کریں اور خواتین کاروباری افراد کو ان کے کاروبار کو رجسٹر کرنے اور فروغ دینے کے ساتھ ساتھ، سرمایہ کاروں کی حوصلہ افزائی کے لیے ٹیکس مراعات فراہم کر سکتی ہیں جو دیہی خواتین کو کامیاب ہونے میں مدد دیتی ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی

17. شواہد بتاتے ہیں کہ آب و ہوا کی تبدیلی دیہی خواتین کی معاش اور معاشی مواقع کو زیادہ متاثر کرتی ہیں ۔ دیہی خواتین کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے موثرحکمت عملی کی ضرورت ہے جو ہر طرح سے دیہی خواتین کا موسمیاتی تبدیلی سے متعلق پالیسی سازی اور منصوبہ بندی کی متعدد سطحوں پر شرکت و شمولیت کو ممکن بنائے۔

18۔ پاکستان کے متنوع جغرافیائی اور ٹپوگرافک علاقوں اور اس میں رہنے والی کمیونٹیز کی معیشت کے لیے موسمیاتی تبدیلی کی پالیسی کا صنفی حساس ہونا اشد ضروری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

 19. صوبائی زرعی محکمے، صوبائی زرعی منصوبوں میں موسمیاتی تبدیلی کے لچکدار عناصر کو شامل کریں، خاص طور پر ان فصلوں میں جن میں خواتین شامل ہیں۔

20۔ دیہی خواتین کے بلا معاوضہ دیکھ بھال کے کام کی قدر اور نگہداشت کی معیشت پر تحقیق کی ضرورت ہے۔

21۔ دیہی خواتین تاجروں پر توجہ مرکوز کرنے کے لیے آج تک کوئی خاطر خواہ تحقیق نہیں کی گئی ہے جس کی مدد سے  کاروباری ثقافت کی موجودہ صورت حال اور دیہی خواتین کو درپیش مسائل کا گہرائی سے اندازہ لگایا جاسکے۔

22۔ زراعت میں خواتین کے کردار کو دیکھتے ہوئے پاکستان میں آب و ہوا کی تبدیلی اور جنس کے درمیان تعلق کا مطالعہ کرنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح آب و ہوا کی تبدیلی اور عورتوں اور بچوں پر اس کے اثرات کی وجہ سے ہجرت پر تحقیق کی ضرورت ہے، جیسے کہ کشیدگی اور نقل مکانی کے نفسیاتی اثرات، اور مردوں کی غیرموجودگی میں کام کا بوجھ بڑھنا۔

23 ۔ سی پیک جیسے اہم منصوبے کا صنفی تجزیہ کیا جائے  کہ اس کا دیہی خواتین پر کیا اثر پڑی گا۔ وہ کیسے اس اہم منصوبے سے فائدہ اٹھا سکتی ہیں اور منفی اثرات کی صورت میں وہ کیسے اس نمٹ سکیں گی۔

 خواتین کے خلاف تشدد

24۔ عورتوں کے جنسی ہراسانی اور تشدد، (چاہے گھر، کام کی جگہ اور عوامی جگہوں پر ہوں) کے قانون کی منظوری سے اب ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اس پر موثر عمل درآمد کی ضرورت ہے تاکہ عملی طور پر خواتین محفوظ محسوس کریں اور سماجی، معاشی اور سیاسی شرکت اور ترقی کے مواقع سے محروم نہ ہوں۔

25۔ اس وقت مقامی اور قومی سطح پر خواتین کے خلاف تشدد کے حوالے سے کوئی قابل اعتماد اعداوشمار موجود نہیں ہیں جن سے اس کی شدت کا اندازہ لگایا جاسکے اور مزید یہ کہ یہ کس طرح خواتین کی صحت اور صلاحیتوں کو متاثر کرتا ہے۔

یہ ضروری ہے کہ پالیسی ساز ادارے ناخوشگوار سچائیوں سے پردہ اٹھانے کے خوف سے آگے بڑھیں اور اس طرح کے اعداد و شمار کو نہ صرف اکٹھا کریں بلکہ اس کی مدد سے ٹھوس اقدامات کریں جو خواتین اور لڑکیوں کے خلاف تشدد کو کم کرے۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ