شہری اور دیہاتی علاقوں کے لاک ڈاؤن میں کیا فرق ہے؟

حفاظتی تدابیر کے پیش نظر انڈپینڈنٹ اردو نے جیسے ہی گھر سے کام کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا میں اسی وقت پشاور سے ضلع دیر کی طرف روانہ ہو گیا۔

دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی کرونا وائرس سے بچنے کے پیش نظر سندھ، پنجاب اور بلوچستان میں لاک ڈاؤن کا اعلان کیا گیا ہے، خیبر پختونخوا میں ابھی تک لاک ڈاؤن کا اعلان نہیں ہوا لیکن حکومت کی جانب سے 28 مارچ تک عام تعطیل کا اعلان کیا گیا ہے۔

خیبر پختونخوا میں ریسٹورانٹ، شاپنگ مالز، مارکیٹیں اور دفاتر بند ہیں لیکن اشیا خوردونوش، سبزی کی دکانیں، پھل کی دکانیں، تندور کھلے ہیں۔

حفاظتی تدابیر کے پیش نظر انڈپینڈنٹ اردو نے جیسے ہی گھر سے کام کرنے کی پالیسی کا اعلان کیا میں اسی وقت پشاور سے ضلع دیر کی طرف روانہ ہو گیا۔

راستے میں تمام ہوٹل بند تھے اور لوگوں کا رش باقی دنوں کے مقابلے میں بہت کم تھا لیکن پھر بھی بعض جگہوں پر لوگوں کے مجمعے دیکھنے کو ملے۔

ضلع دیر پہنچ کر تیمرگرہ بازار جو اس ضلع کا بڑا بازار ہے وہاں رش نہ ہونے کے برابر تھا لیکن کچھ مقامات اور خاص کر سبزی منڈی کے احاطے میں لوگوں کا رش لگا ہوا تھا۔

شہری علاقوں کے رہنے والے جہاں تک دیکھا گیا ہے تو مکمل طور پر گھروں تک محدود ہوتے ہیں کیونکہ وہاں پر پبلک پارکس اور دیگر عوامی مقامات بند ہیں لیکن دیہی علاقوں میں زیادہ تر لوگ جب گھروں میں تنگ ہو جاتے ہیں تو پہاڑی علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔

ان میں زیادہ  تر نوجوان طبقے کو دیکھا گیا کیونکہ ان کو گھر میں رہنے کی عادت نہیں ہے اور وہ تنگ ہونے کی وجہ سے دو تین دوست مل کر زیاد تر عصر کے بعد واک کے لیے چلے جاتے ہیں۔ انہی میں ایک نوجوان عباداللہ بھی ہے جو اپنے دوست کے ساتھ گاؤں کے قریبی پہاڑی پر چلا جاتا ہے تاکہ شام تک کا وقت وہاں گزار سکے۔

عباداللہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ انھوں نے گاؤں کے قریب بیڈ منٹن کے لیے جگہ بنائی ہے اور کرونا وائرس آنے سے پہلے گاؤں کے سب دوست وہاں پر بیڈ مینٹن کھیلتے تھے لیکن ابھی چونکہ حکومت نے اعلان کیا ہے کہ زیادہ لوگ ایک ساتھ اکھٹے نہ ہوں تو ہم کھیل کے وقت پہاڑی پر چلے جاتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انھوں نے بتایا کہ ’میں سمجھتا ہوں کہ بازار یا بھیڑ میں جانے سے بہتر ہے کہ اس پہاڑی پر جائیں کیونکہ یہاں آبادی بھی نہیں ہے اور موسم بھی اچھا ہوتا ہے اور اس سے وقت بھی گزر جاتا ہے کیونکہ گھر میں سارا دن بیٹھ کر بندہ بور ہوجاتا ہے۔‘

میں نے تیمر گرہ بازار سے لواری ٹنل تک کا سفر کیا تاکہ معلوم کر سکوں کہ عوام کرونا وائرس کو کتنا سنجیدگی سے لے رہے ہیں۔

جہاں تک میں نے اندازہ لگایا تو خیبر پختونخوا اور بالخصوص مردان میں کرونا وائرس کی وجہ سے ایک شخص کی ہلاکت کے بعد لوگوں نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لینا شروع کیا ہے۔

ضلع دیر بالا کے ایک بڑے ہوٹل کے سامنے رک گیا تاکہ معلوم کر سکوں کہ ہوٹل بند ہوا ہے یا نہیں تو ہوٹل کے ملازم نے بتایا کہ ہوٹل مکمل طور بند ہے اور کسی کو بھی کھانا دینے کی اجازت نہیں ہے۔ تاہم ایک دوسرا چھوٹا سا ڈاھبہ تھا جہاں پر چائے مل رہی تھی۔

ہوٹل کے مالک سے پوچھا کہ ہوٹل تو بند ہیں آپ نے کیوں کھلا رکھا ہے تو انھوں نے جواب دیا ’اللہ خیر کرے گا۔ کرونا یہاں تک ابھی نہیں پہنچا ہے اور اللہ پر ایمان رکھنا چاہیے ۔‘

تاہم یہ بھی دیکھنے کو ملا کہ لوگوں نے ماسک پہننا شروع کر دیا ہے اور زیادہ تر لوگ کوشش کرتے ہیں کہ وہ عوامی مقامات جانے سے پرہیز کریں لیکن جنازوں اور شادیوں میں جانا ابھی تک بند نہیں ہوا۔ کل ہی جب میں پہنچا تو قریبی گاؤں میں فوتگی ہوئی تھی اور لوگ جنازے کے لیے جا رہے تھے جبکہ اسی طرح ایک شادی کے بارے میں بھی پتہ چلا کہ قریب ہی کے ایک علاقے میں شادی کی تقریب منعقد کی گئی تھی۔

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان