ضم شدہ قبائلی اضلاع میں محض 81 بینک شاخیں: رپورٹ

پشاور میں جاری اس تجزیاتی رپورٹ کے مطابق ان علاقوں میں مالیاتی خدمات تک رسائی پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت انتہائی کم ہے۔

ضم شدہ اضلاع میں کاروباری حضرات اپنے کاروبار میں توسیع کے لیے بنیادی طور پر ذاتی بچت اور دوستوں اور خاندانوں کے انفرادی قرضوں پر انحصار کرتے ہیں(اے ایف پی)

حکومت خیبرپختونخوا اور اقوام متحدہ کے ترقی کے پروگرام (یو این ڈی پی) کے اشتراک سے تیار کی گئی ایک تفصیلی تجزیاتی رپورٹ کے مطابق سات ضم شدہ اضلاع میں بینکوں کی کل 81 شاخیں ہیں جو خیبر پختونخوا میں موجود کل شاخوں کے پانچ فیصد سے بھی کم ہیں۔

’ضم شدہ علاقوں میں نجی شعبے کی ترقی کے لیے مالیات ذرائع تک رسائی‘ کے عنوان سے جمعرات کو پشاور میں جاری اس تجزیاتی رپورٹ کے مطابق ان علاقوں میں مالیاتی خدمات تک رسائی پاکستان کے دیگر علاقوں کی نسبت انتہائی کم ہے۔

رپورٹ کے مطابق رسمی بینکاری خدمات نجی شعبے کی کاروباری سرگرمیوں کو متاثر کرتی ہیں، جس سے ملازمتوں کی تخلیق اور اقتصادی ترقی بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔

یہ رپورٹ ریگولیٹری فریم ورک کو مضبوط کرنے اور ضم شدہ اضلاع میں کاروباری حضرات کو بینک قرضے دینے کی ضرورت پر روشنی ڈالتی ہے اور چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروباری اداروں کی غیر رسمی نوعیت کو بھی نجی سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور کریڈٹ ہسٹری بنانے میں اضافی رکاوٹ قرار دیتی ہے۔

دسمبر 2020 تک کے اعداد وشمار کے مطابق ان علاقوں میں کل انفرادی قرضوں کی مالیت (59 کروڑ 40 لاکھ روپے) نجی شعبے کے قرضوں کی کل مالیت (21کروڑ 90 لاکھ روپے) سے دو گنا تھی کیونکہ کاروباری حضرات اپنے کاروبار میں توسیع کے لیے بنیادی طور پر ذاتی بچت اور دوستوں اور خاندانوں کے انفرادی قرضوں پر انحصار کرتے ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ چھوٹے قرضوں کی فراہمی یعنی مائیکرو فنانسنگ مواقعوں میں حالیہ عرصے میں تیزی آئی ہے۔ جس کے تحت فراہم کردہ قرضوں کی اوسط مالیت کم ہے۔ لیکن مائیکرو فنانسنگ ایک خاص حد تک ہی نجی شعبے کی ترقی میں مدد کرسکتی ہے اور اسے ضم شدہ اضلاع میں محدود مالی وسائل کی دستیابی کے چیلنج کے لیے ایک جامع حل نہیں قرار دیا جا سکتا۔ زرعی قرضے بھی زیادہ تر ضلع کرم اور ضلع باجوڑ  تک محدود ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ان علاقوں میں کل زرعی قرضے خیبرپختونخوا میں دیے گئے کل قرضوں کے ایک فیصد سے بھی کم ہیں۔

ضم شدہ علاقوں کے گورننس پراجیکٹ (ایم اے جی پی ) کی پروگرام مینجر ریلوکا ایڈن نے ضم شدہ اضلاع کے مسلسل انضمام اور ترقی میں کے پی حکومت کی معاونت میں یو این ڈی پی کے عزم کا اعادہ کیا۔

انہوں نے تمام سٹیک ہولڈرز بشمول حکومت، ترقیاتی شراکت داروں اور پرائیویٹ سیکٹر ز پر زور دیا کہ وہ  ان علاقوں میں مالیاتی وسائل کی وسیع پیمانے پر دستیابی بالخصوص خواتین اور کمزور طبقے کی مدد کے لیے بینکنگ سیکٹر کی معاونت کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے کہا کہ موجودہ قرض سکیموں اور مائیکرو فنانس کی رسائی بڑھا کر، مخصوص اہداف کے حصول کے لیے خدمات متعارف کرا کے اور کریڈٹ معلومات تک رسائی کو آسان بنا کر سازگار کاروباری ماحول کو پیدا کیا جاسکتا ہے۔ جس سے  مقامی کاروبار کو پھلنے پھولنے میں مدد ملے گی۔

ایم اے جی پی کے سینیئر سیکٹر سپیشلسٹ برائے سمال اینڈ میڈیم انٹرپرائزز احمد عمیر نے حکومت کی موجودہ قرض سکیموں جیسے کامیاب جوان اور انصاف روزگار کو بڑھانے کی سفارش کی۔

 ان کا کہنا تھا کہ ’ضم شدہ اضلاع کے نوجوانوں کو کریڈٹ سروسز کے حصول کے لیے درکار تعلیمی معیار پر نظرثانی کرنے اور اس میں نرمی کی ضرورت ہے۔‘

اپنے اختتامی کلمات میں، سیکرٹری صنعت کامرس اینڈ ٹیکنیکل ایجوکیشن ڈیپارٹمنٹ خیبرپختونخوا ہمایوں خان نے دیگر سٹیک ہولڈرز جیسے کہ سٹیٹ بینک، سیکیورٹیز اینڈ ایکسچینج کمیشن اور دیگر مالیاتی اداروں کے ساتھ شراکت پر روشنی ڈالی تاکہ مقامی کاروبار کے لیے مالیاتی وسائل تک رسائی ممکن ہو اور انہیں ریگولیٹری سپورٹ فراہم کی جا سکے۔

انہوں نے کہا کہ ’ضم شدہ اضلاع کے اقدامات کا ایک اہم ہدف روزگار کے مواقع پیدا کرنا ہے، جسے نجی شعبے کی مکمل استعداد کے ساتھ کام کے ذریعے ہی حاصل کیا جاسکتا ہے۔ کیونکہ مالیاتی وسائل کی کمی اگر نجی سطح پر کاروباری مواقع میں اضافے میں واحد رکاوٹ تو نہیں لیکن ایک وجہ ضرور ہے۔‘

تقریب میں تمام متعلقہ محکموں جیسے پلاننگ اینڈ ڈویلپمنٹ، انڈسٹریز، لیبر، ڈائریکٹوریٹ آف مانیٹرنگ اینڈ ایویلیو ایشن، ادارہ برائے شماریات، ایس ڈی یو حکام اور بینکنگ سیکٹر سے سٹیٹ بنک، حبیب بینک، بینک آف خیبر کے نمائندے شریک ہوئے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی معیشت