’ڈسکہ الیکشن میں جو کچھ ہوا پنجاب حکومت اس کی ذمہ دار نہیں‘

پنجاب حکومت نے الیکشن کمیشن کو مشورہ دیا ہے کہ وہ ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں قانونی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے والے انتخابی عملے کے خلاف کارروائی شروع کرے۔

الیکشن کمیشن آف پاکستان کی عمارت  ( اے ایف پی فائل فوٹو)

پنجاب میں وزیر اعلیٰ عثمان بزدار کی حکومت نے ہفتے کو الیکشن کمیشن آف پاکستان کو ڈسکہ کے ضمنی انتخابات میں قانونی ذمہ داریاں پوری نہ کرنے والے انتخابی عملے کے خلاف کارروائی شروع کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ 

پنجاب حکومت کے ترجمان حسان خاور نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’پریزائیڈنگ افسران کی تعیناتی اور کردار الیکشن کمیشن کا معاملہ ہے اور انہی کو اسے دیکھنا چاہیے۔‘ 

یاد رہے کہ جمعے کو جاری ہونے والی الیکشن کمیشن کی ایک تحقیقاتی رپورٹ میں اس سال فروری میں ضلع سیالکوٹ میں قومی اسمبلی کے حلقے این  اے 75 ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں انتخابی اہلکار، پولیس اور مقامی انتظامیہ کو اپنا قانونی کردار ادا کرنے میں ناکام قرار دیتے ہوئے کہا گیا کہ مذکورہ الیکشن منصفانہ، آزادانہ اور شفاف طریقے سے منعقد نہیں ہوئے۔ 

رپورٹ میں این اے 75 ڈسکہ میں تعینات 20 پریزائیڈنگ افسران کی نشاندہی کی گئی ہے جنہوں نے مبینہ طور پر نتائج کی تبدیلی کے لیے مختلف حربے استعمال کیے۔ 

رپورٹ میں کئی دوسرے سرکاری اہلکاروں بشمول پولیس افسران کی بھی نشاندہی کی گئی ہے جنہوں نے پریزائیڈنگ افسران کو انتخاب کے نتائج تبدیل کرنے سے متعلق یدایات، احکامات اور مدد فراہم کی۔ 

حسان خاور کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ کو دیکھا جا رہا ہے اور حکومتی سطح پر کمی یا کوتاہی ہوئی تو اس کو دیکھا جائے گا۔ ’ہم چاہیں گے کہ انتخابات سے متعلق معاملات بہتر ہو لیکن ڈسکہ ضمنی انتخاب میں زیادہ ذمہ داری الیکشن کمیشن کی بنتی ہے۔‘ 

انہوں نے کہا کہ وزیر اعظم عمران خان اور وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی حکومتوں نے ہمیشہ ملک میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کا کیس لڑا ہے اور اسی پاکستان تحریک انصاف کی حکومت الیکٹرانک ووٹنگ مشین متعارف کروانا چاہ رہی ہے۔ 

انہوں نے کہا کہ انتخابی عملے سے صوبائی یا وفاقی حکومت کا کوئی لینا دینا نہیں کیونکہ ان کی تعیناتی اور ان سے کام لینا الیکشن کمیشن آف پاکستان کی ذمہ  داری ہے۔ 

پنجاب حکومت کے ترجمان نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو دیکھنا چاہیے کہ انتخابی عمل ڈسکہ کے ضمنی انتخاب میں اپنی قانونی ذمہ داریاں پوری کرنے میں کیوں ناکام رہا۔ 

تاہم حسان خاور نے الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں پنجاب حکومت کے دوسرے (غیر انتخابی) سرکاری اہلکاروں کے مبینہ غیر قانونی کردار پر تبصرہ نہیں کیا۔ 

دوسری طرف حزب اختلاف کی جماعتوں نے الیکشن کمیشن کی مذکورہ رپورٹ کی روشنی میں وزیر اعظم عمران خان کے خلاف تادیبی کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ 

حزب اختلاف کی سب سے بڑی جماعت پاکستان مسلم لیگ ن کی ترجمان مریم اورنگزیب کا کہنا تھا کہ الیکشن کمیشن کی رپورٹ سے ثابت ہو گیا کہ وزیر اعظم عمران خان نے ڈسکہ کے ضمنی انتخابات چوری کرنے کی کوشش کی اور اس کے لیے ان کے خلاف فوجداری مقدمہ قائم ہونا چاہیے۔ 

مسلم لیگ ن کے رہنما خواجہ سعد رفیق اور سابق سپیکر قومی اسمبلی سردار آیاز صادق نے میڈیا سے گفتگو میں اسی طرح کا مطالبہ کیا۔ 

حسان خاور کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کو انتخابات پر سیاست نہیں کرنا چاہیے بلکہ حکومت کی ان کوششیں میں مدد کرنا چاہیے جن کے ذریعے مستقبل میں انتخابات کے عمل کو شفاف اور منصفانہ بنایا جا سکتا ہے۔ 

الیکشن کمیشن رپورٹ 

این اے 75 ڈسکہ سیالکوٹ میں ضمنی انتخابات سے متعلق تحقیقاتی رپورٹ پنجاب کے جوائنٹ الیکشن کمشنر سعید گل کی تیار کردہ رپورٹ میں کہا گیا: ’انتخابی اہلکار، پولیس اور مقامی انتظامیہ ضمنی الیکشن کے دوران اپنے ناجائز آقاؤں کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بنے رہے۔‘  

یاد رہے کہ ڈسکہ کے متنازع انتخابات تشدد، مبینہ دھاندلی اور 20 سے زائد پریذائیڈنگ افسران کے لاپتہ ہونے کے باعث متاثر ہوئے تھے، بعد ازاں مبینہ بے ضابطگیوں کی تحقیقات کے لیے فیکٹ فائنڈنگ انکوائری شروع کی گئی۔ 

الیکشن کمیشن نے 19 فروری کو ہونے والے ضمنی انتخاب کے نتائج غلط ہونے کے شبہے کے تحت پورے حلقے میں دوبارہ انتخابات کا حکم دیا تھا جب کہ بعد میں سپریم کورٹ نے بھی اس حکم کو برقرار رکھا۔ 

این اے 75 ڈسکہ میں اس سال اپریل میں ضمنی انتخاب منعقد ہوئے تھے، جن میں مسلم لیگ (ن) کی سیدہ نوشین افتخار ایک لاکھ 10 ہزار ووٹ لے کر پاکستان تحریک انصاف کے علی اسجد ملہی کے 93 ہزار سے کچھ زیادہ ووٹوں کے مقابلے میں کامیاب قرار پائی تھیں۔ 

انکوائری رپورٹ کے مطابق: ’ایسا لگتا تھا کہ ایک مستقل آبزرویٹری فورس پریزائیڈنگ افسران کو چلا رہی تھی یا انہیں لالچ دے رہی تھی اور وہ ضمنی انتخابات کے دوران اپنے فرائض کی انجام دہی میں ناکام رہے۔‘  

رپورٹ میں کہا گیا کہ 20 پریزائیڈنگ افسران، جنہیں زبردستی کسی نامعلوم مقام پر لے جایا گیا تھا، کے بیانات حقائق چھپائے جانے کی نشاندہی کرتے ہیں جبکہ مذکورہ افسران نے انتخاب کے دوران رپورٹ ہونے والی بے ضابطگیوں کے لیے پولیس اہلکاروں کو مورد الزام ٹھہرایا۔  

تاہم رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا کہ مذکورہ افسران کے بیانات ان کی غفلت اور بدانتظامی کا جواز پیش نہیں کر سکتے۔ 

الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ پریزائیڈنگ افسران کے بیانات اور انہیں نامعلوم مقامات پر لے جائے جانے کی تحقیقات سے شکوک پیدا ہوتے ہیں کہ کوئی ان کی پشت پناہی کر رہا ہے، جبکہ سینئیر اسسٹنٹ پریذائیڈنگ آفیسرز نے بھی ان شبہات کی تائید کی۔ 

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ سینئیر پریزائیڈنگ افسران کے بیانات سے واضح ہوا کہ ایک پریزائیڈنگ افسر اپنی مرضی سے شواہد کا ٹیمپرڈ بیگ ایک شاپنگ بیگ میں ڈال کر اپنے ساتھ لے کر گیا تھا۔   

رپورٹ میں مزید کہا گیا: ’واقعاتی شواہد، بعض پریزائیڈنگ افسران اور سینئیر پریزائیڈنگ افسران کے تحریری بیانات، بہت سے ڈرائیوروں اور چند ایک پولیس اہلکاروں کے بیانات اور پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کے سی ڈی آر ڈیٹا سے واضح ہوتا ہے کہ مذکورہ بالا پریزائیڈنگ افسران منصوبہ بندی کے تحت نجی گاڑیوں میں اپنے متعلقہ پولنگ سٹیشنز چھوڑ کر چلے گئے تھے۔ 

’ایسا کرتے ہوئے مذکورہ افسران تقریبا ساڑھے آٹھ بجے سیالکوٹ پہنچے جب کہ راستے میں قلعہ کلر والا پولیس اسٹیشن/ساترا تھانے، ڈی ایس پی پسرور اور منڈیکے کے دفاتر پر رکے تھے۔‘ 

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ افسران شہاب پورہ/یوگوکے روڈ پر زہرہ ہسپتال [سیالکوٹ میں] کے قریب واقع کسی نامعلوم عمارت میں سات گھنٹے سے زیادہ وقت کے لیے ٹھہرے، اور اس کے بعد انہیں پولیس کی حفاظت میں جیسر والا میں ریٹرننگ آفیسر کے دفتر لے جایا گیا، جب کہ اپنی منزل پر پہنچنے سے پہلے تمام افسران کو ایک ٹویوٹا ہائی ایس سے پولیس وین میں منتقل کیا گیا تھا۔   

انکوائری رپورٹ میں یہ بھی نوٹ کیا گیا کہ بہت کم پریزائیڈنگ افسران اپنے متعلقہ پولنگ اسٹیشنز کے نتائج واٹس ایپ کے ذریعے بھیجنے یا اصل نتائج جمع کرانے میں کامیاب ہوئے۔ 

رپورٹ میں آگے چل کر کہا گیا: ’تحقیقات سے پتہ چلا کہ ڈسکہ کی ڈپٹی ایجوکیشن آفیسر فرخندہ یاسمین نے اپنے گھر پر پریزائیڈنگ افسران کے ساتھ اجلاس کیا، جہاں انہیں ضمنی انتخاب میں حکومت کی حمایت کرنے، ووٹرز کو شناختنی کی فوٹو کاپی پر ووٹ ڈالنے کی اجازت دینے، ان کی طرف سے ملنے والے احکامات پر عمل کرنے اور امن و امان کی صورت حال کی صورت حال کے بارے میں پریشان نہ ہونے کی ہدایات دی گئیں۔ 

الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں سیالکوٹ کالجز کے ڈپٹی ڈائریکٹر محمد اقبال کولایا کی ڈسکہ کے اسسٹنٹ کمشنر ہاؤس میں ہونے والے اجلاسں میں انتخابی عمل میں ہیرا پھیری کی غرض سے ملوث ہونے کا بھی انکشاف ہوا۔ 

رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ان اجلاسوں میں وزیر اعلیٰ پنجاب کی سابق معاون خصوصی فردوس عاشق اعوان سمیت دیگر اہلکاروں نے شرکت کی اور انہیں اجلاسوں میں محمد اقبال کولایا نے پریزائیڈنگ افسران کو ووٹنگ کے عمل کو سست کرنے اور پولیس اور ضلعی انتظامیہ کے معاملات میں مداخلت نہ کرنے کی ہدایات دیں۔   

رپورٹ میں کہا گیا کہ سامنے آنے والے شواہد ثابت کرتے ہیں کہ ضمنی انتخاب میں صرف پریزائیڈنگ افسران کی غفلت اور بدانتظامی شامل نہیں تھی، بلکہ یہ سب کچھ پہلے سے کی گئی منصوبہ بند کے تحت کیا گیا، جو اہم محکموں کی مدد کے بغیر ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ 

انکوائری میں یہ بھی پتہ چلا کہ 17 پریزائیڈنگ افسران نے ضمنی انتخاب کی ڈیوٹی سے استثنیٰ کی درخواستیں دی تھیں، جن کی جانچ پڑتال سے حیرت انگیز انکشاف ہوا کہ ٹی سی ایس کے لفافوں پر تحریریں ایک جیسی تھیں، جس نے مزید شکوک کو جنم دیا۔ 

تاہم ٹی سی ایس نے تصدیق کی کہ درخواستیں اسی دن سیالکوٹ کے تین مختلف مراکز سے بھیجی گئی تھیں، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ مذکورہ درخواستیں کا انتظام سیالکوٹ میں موجود کسی ایک شخص نے کیا تھا، جس نے جان بوجھ کر ضمنی انتخاب کے عمل میں رکاوٹ ڈالنے کی کوشش کی، اور ایسا کرنے میں کامیاب ہوا۔   

رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ مذکورہ حقائق کی روشنی میں حتمی طور پر نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ پریزائیڈنگ افسران کی سرگرمیاں مشکوک تھیں، وہ اپنی ’کنٹرولنگ اتھارٹی‘ کے ہاتھوں کی کٹھ پتلی بن گئے تھے، اور یہاں تک کہ ان کے الزامات کے جمع کروائے گئے جوابات بھی مکمل طور پر گمراہ کن تھے۔ 

’اس پوری سازش میں پریزائیڈنگ افسران کا کردار ایک واضح تناسب رکھتا ہے جس نے ضمنی انتخاب کو ایک ڈیڈ ڈک بنا دیا۔‘ 

الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں پولیس کے کردار کے حوالے سے کہا کہ پریزائیڈنگ افسران، سینئیر پریزائیڈنگ افسران، نائب قاصد، ڈرائیورز اور پولیس اہلکاروں کے بیانات سے یہ بات سامنے آئی کہ متعلقہ ایس ایچ اوز اور سب سیکٹر انچارج نے مطلوبہ طریقے سے اپنے فرائض سرانجام نہیں دیے، بلکہ ضمنی انتخاب کے پورے عمل کے دوران جوڑ توڑ کرنے میں کردار ادا کرتے رہے۔ 

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ پولنگ کے دوران پولیس اہلکار اپنے علاقوں میں واقع پولنگ سٹیشنوں میں داخل ہوتے اور پولنگ عملے سے ملاقات کرتے رہے، جو ان کے دائرہ اختیار میں نہیں تھا۔  

رپورٹ کے مطابق: ’پولیس اہلکاروں کی سرکاری گاڑیاں کچھ لاپتہ پریزائیڈنگ افسران کو نامعلومات مقامات پر لے جانے میں بھی استعمال ہوئیں جن میں وہ ایک قافلے کی صورت میں پسرور ڈی ایس پی کے دفتر اور پھر سیالکوٹ گئے، جبکہ ڈی ایس پی ڈسکہ ان کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھے، اور اپنے موبائل، لینڈ لائن سے ہر انچارج کو فون کرتے رہے، جبکہ انہیں وائرلیس کے ذریعے بھی ہدایات دیں، جن پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔  

سفارشات 

الیکشن کمیشن کی رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ سینئیر پریزائیڈنگ افسران کو انتخاب سے ایک دن قبل ریٹرننگ افسران کے دفتر سے انتخابی مواد حاصل کرنے سے الیکشن کے بعد دفتر میں مواد کی واپسی کے وقت تک پریزائیڈنگ افسران کے ساتھ رہنے کا پابند بنایا جائے۔ 

’ریٹرننگ افسران پریزائیڈنگ افسران کی نقل و حرکت کے لیے استعمال ہونے والی گاڑیوں کا لاگ کے علاوہ، دوسری تفصیلات جیسے ہر گاڑی میں سفر کرنے والے افراد کی تعداد اور ان کے آنے اور جانے کا وقت کا ریکارڈ بھی رکھا جا سکتا ہے۔‘ 

رپورٹ میں سفارش کی گئی ہے کہ ہر پریزائیڈنگ افسر کو منفرد نمبر والی ڈسپوزایبل بریسلٹ کی شکل میں ایک ٹریکنگ چپ دی جا سکتی ہے، جس سے اس کے مقام کے بارے میں جانا اور مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔‘ 

رپورٹ چیلنج کرنے کا اعلان

فردوس عاشق اعوان نے جیو نیوز سے گفتگو میں کہا کہ 133 صفحات کی رپورٹ میں ان کا ذکر صرف ایک سطر میں آیا جبکہ اس کے علاوہ کوئی دوسرا ثبوت نہیں دیا گیا۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں ان کا ذکر محض رنگ بھرنے کے لیے کیا گیا، جس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک سطر کے علاوہ ان کے متعلق کوئی دوسرے وضاحت موجود نہیں۔

انہوں نے کہا کہ رپورٹ میں کوئی ایسا ثبوت نہیں کہ وہ (فردوس عاشق اعوان) کسی اجلاس میں موجود تھیں جہاں انتخاب میں دھاندلی کی مبینہ منصوبہ بندی کی گئی۔

انہوں نے رپورٹ کو چیلنج کرنے کا اعلان بھی کیا۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان