افغانستان کی جیلوں میں موجود قیدی نئے نظام انصاف کے منتظر

طالبان اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ بعد بھی ملک بھر میں نئے نظام انصاف کے نفاذ کی جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

ایک چھوٹا کمرہ جس میں قالین بچھا ہوا ہے ان 12 ’مجرموں‘ کی جیل ہے جو طالبان کے انصاف کے منتظر ہیں۔ وہ انصاف جو انہیں تب ملے گا جب افغانستان کی نئی انتظامیہ اپنے نظام قانون کو قائم کرنے کی جدوجہد میں کامیاب ہو گی۔

جنوبی افغانستان کے ضلع پنجوائی میں واقع طالبان کے ہیڈکوارٹرز میں قید ان ملزمان کو ابھی تک کسی مقامی جج کے سامنے پیش نہیں کیا گیا جو دوسرے علاقوں میں مصروف ہیں۔ جج کے آنے تک صوبہ قندھار میں اس یونٹ کے طالبان جنگجو جو اپنی سوچ اور اسلامی قوانین کی گروپ کی طرف سے کی گئی تشریح پر یقین رکھتے ہیں۔

قرضے کے واجبات ادا نہ کرنے پر تین دن پہلے گرفتار ہونے والی 41 سالہ کاروباری شخصیت حاج باران کے بقول: ’جب تک میں اس شخص کا قرضہ واپس نہیں کرتا جس سے میں نے قرض لیا تھا، وہ مجھے یہاں پر رکھیں گے۔‘

انہوں نے اے ایف پی کو بتایا کہ ’طالبان کے اسلامی قانون کے ساتھ ہمارا انصاف کا نظام اچھا ہے۔‘ اس بات چیت کے دوران محافظ نے ان پر کڑی نظر رکھی۔

تقریباً 20 سال تک جاری رہنے والی عسکری کارروائیوں کے بعد طالبان نے اگست میں اقتدار سنبھال لیا تھا لیکن انہوں نے بہت عرصہ پہلے انصاف کو اپنے نظریے کا مرکز بنایا۔

سال 2010 سے 2016 طالبان کے عدالتی نظام پر تحقیق کرنے والے محقق ایڈم بازکو کے مطابق: ’انہوں نے عدالتوں کو طاقت حاصل کرنے کا ایک ذریعہ بنایا۔‘

ایڈم بازکو کہتے ہیں کہ ’2004 کے بعد سے وہ علاقے جہاں طالبان کی عمل داری تھی وہاں لوگ ان سے رجوع کر رہے تھے کیونکہ ان کے زمین تنازعات میں مغربی گروپوں کی مداخلت اور اس عدالتی نظام پر ناراضی بڑھتی جا رہی تھی جس میں بدعنوانی اور اقربا پروری میں اضافہ ہو رہا تھا۔‘

بازکو جنگ کے تناظر میں وضاحت کرتے ہیں کہ ’طالبان کی سخت سزاؤں کا بعض حلقوں نے خیرمقدم کیا۔ طالبان نہ صرف اپنی سخت گیری بلکہ غیر جانبداری اور برق رفتار ہونے کے حوالے سے جانے جاتے تھے۔‘

طالبان اقتدار سنبھالنے کے تین ماہ بعد بھی ملک بھر میں نئے نظام انصاف کے نفاذ کی جدوجہد کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

’میں نے کچھ غلط نہیں کیا‘

قندھار شہر میں واقع قریبی جیل کے ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل منصور مولوی بدبودار بیرکس دکھاتے ہوئے کوڑے کے طور پر استعمال کیے جانے والا بجلی کی تار کے ٹکڑے کی نمائش کرتے ہیں۔ ان کے مطابق بیرک کے ایک حصے میں منشیات کے عادی ایک ہزار افراد کو جبری طور پر لا کر رکھا گیا ہے۔ اب دو سو ’مجرموں‘ کو بھی رکھا جا رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ’کون مجرم ہے، اس کا فیصلہ اسلامی قانون کے مطابق کرنا بہتر ہے۔ سابقہ غیر مؤثر اور بدعنوانی پر مبنی نظام میں انہیں اس بات کا علم نہیں تھا۔‘ ماضی میں منصور مولوی اس علاقے میں طالبان کی خفیہ جیل بھی چلاتے رہے ہیں۔

جیل کے صحن میں آلتی پالتی مار کر بیٹھے محمد نعیم ان قیدیوں میں شامل ہیں جنہیں فیصلے کا انتظار ہے۔ انہیں دو ماہ پہلے ان کی بیوی اور ایک 14 سالہ لڑکی کے ساتھ ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا۔ نعیم کے مطابق وہ اس لڑکی سے شادی کرنا چاہتے تھے۔

35 سالہ نعیم واقعے کی وضاحت کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ’لڑکی تیار تھی لیکن اس کے والدین تیار نہیں تھے۔ انہوں نے شکایت کر کے طالبان کو بلا لیا۔ میں نے کسی کو ہاتھ بھی نہیں لگایا وہ ٹیسٹ اور جانچ پڑتال کر سکتے ہیں۔‘

نعیم کے بقول: ’میں اسلامی قانون کے مطابق فیصلہ چاہتا ہوں کیونکہ میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔‘

سبق سکھانا

اقتدار سنبھالنے کے بعد بعض مقدمات میں طالبان ججوں نے حمایت میں کمی آنے کے خدشے کے پیش نظر زیادہ سختی سے گریز کیا ہے۔

ایڈم بازکو کو 90 کی دہائی میں سابقہ طالبان دور حکومت کا ایک بدنام مقدمہ یاد ہے جس میں ہم جنس پرستی میں ملوث ہونے پر ایک شخص پر مبینہ طور پر دیوار گرا کر انہیں ہلاک کر دیا گیا تھا۔

بازکو کے مطابق اب طالبان کے نظام انصاف کے تحت اس طرح کے واقعات روزمرہ کی زندگی میں نظر نہیں آتے۔

حکومت کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد نے کہا تھا کہ ’ اگر کسی نے کسی کو قتل کر دیا تو چاہے وہ ہمارے لوگوں میں سے ایک ہی کیوں نہ ہو تو اسے عدالت میں قانون کا سامنا کرنا پڑے گا کیونکہ اس کا عمل جرم ہے۔‘

انہوں نے یہ بیان ایک واقعے کے بعد دیا جس میں ملسح افراد نے موسیقی کے تنازعے پر شادی میں آئے تین مہمانوں کو ہلاک کر دیا تھا۔

اس تمام صورت حال کے باوجود نئی حکومت پہلے ہی اپنے سابقہ دور کے طریقہ کار سے کام لے چکی ہے جن میں مذہبی پولیس اور وزارت امر بالمعروف و نہی عن المنکر کا قیام ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان نے سخت سزائیں دینے کا سلسلہ بھی جاری رکھا ہوا ہے۔ 25 ستمبر کو طالبان نے ہرات میں ان چار مردوں کو کرین کے ساتھ باندھ کر پھانسی دے دی جن پر لوگوں کو اغوا کرنے کا الزام تھا۔ اس اقدام کا مقصد دوسرے لوگوں کو سبق سکھانا تھا۔

قول بمقابلہ فعل

بازکو نے کہا کہ طالبان ’اپنے اخلاقی نظریے اور ایسے وعدے کرنے کے درمیان پھنسے ہیں جس سے یہ ظاہر ہو کہ انہیں اقدار اور انسانی حقوق کی سمجھ بوجھ ہے۔‘

اب طالبان عہدے دار اسداللہ شاہنان کابل کی سب سے بڑی پل چرخی جیل کو دوبارہ کھولنے کی تیاری کر رہے ہیں۔

امریکی حمایت یافتہ سابق افغان حکومت کے خلاف لڑائی کے آخری گھنٹوں میں طالبان نے وہاں سے ہزاروں قیدیوں کو رہا کر دیا تھا۔

سابقہ دور حکومت میں شاہنان خود بھی پل چرخی جیل میں چھ سال گزار چکے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ’سابق حکومت نے سزائے موت دینے کا عمل جاری رکھا۔‘

شاہنان اس وقت کو یاد کرتے ہیں کہ کس طرح قیدیوں کو زبردستی کھڑکیوں کے پاس لایا جاتا تھا کہ وہ پھانسی کی کارروائی دیکھیں۔ شاہنان کے بقول: ’ہم ایسا نہیں کرتے۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا