بھارتی دارالحکومت دلی کے مضافاتی علاقے ’گروگرام‘ میں قائم سردار بازار گردوارے کی انتظامیہ نے مسلمان آبادی کو پیشکش کی ہے کہ وہ اگر چاہیں تو ان کے گردوارے میں نماز ادا کرسکتے ہیں۔
سردار بازار گردوارے کے صدر شیر دل سنگھ سندھو کا کہنا ہے کہ یہ گردوارہ بغیر کسی امتیاز کے تمام مذاہب سے تعلق رکھنے والی افراد کے لیے کھلا ہے اور اس میں کوئی سیاست نہیں ہے۔
انہوں نے بتایا کہ گردوارے کا تہہ خانہ مسلمان بھائیوں کے لیے کھلا ہے جو وہاں ’جمعے کی نماز‘ پڑھ سکتے ہیں۔
شیر دل سنگھ سندھو کا کہنا ہے کہ ’اگر کوئی کھلی جگہ موجود ہے تو مسلمانوں کو نماز پڑھنے کی اجازت ہونی چاہیے اور ہمیں اتنے معمولی معاملات پر لڑائی نہیں کرنی چاہیے۔‘
Gurugram's Sadar Bazaar Gurudwara offers space for Namaz
— ANI (@ANI) November 18, 2021
It's 'Guru Ghar', open for all communities with no discrimination. There shouldn't be any politics here. Basement is now open for Muslim brothers who want to offer 'Jumme ki namaz': Sherdil Singh Sidhu Gurudwara president pic.twitter.com/6gNW3eSuAz
’جو لوگ کھلی جگہ پر نماز پڑھنا چاہتے ہیں انہیں انتظامیہ سے اجازت لینی چاہیے اور جن کو اس بات سے مسئلہ ہے انہیں حملہ کرنے سے پہلے انتظامیہ سے رابطہ کرنا چاہیے۔‘
بھارت میں دائیں بازو سے تعلق رکھنے والی قدامت پسند جماعتوں کے کارکنان مسلمانوں کے کھلے مقامات پر جمعے کی نمازیں ادا کرنے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔
اس تنازعے کا آغاز کیسے ہوا؟
واضح رہے کہ بھارت میں سوشل میڈیا پر ایک منظم مہم چلائی گئی تھی کہ مسلمان جمعے کے دن سڑک یا کسی اور کھلی جگہ پرچٹائیاں بچھا کر نماز پڑھتے ہیں جس کی وجہ سے باقی شہری پریشان ہوتے ہیں لہٰذا یہ سلسلہ بند ہونا چاہیے۔
29 ستمبر کو ایک شخص کی ویڈیو وائرل ہو گئی جو دہلی کے قریب گڑگاؤں نامی قصبے میں جمعے کی نماز کے اجتماع کے خلاف احتجاج کر رہا تھا۔
اس کے بعد سے اب تک مسلسل چھ ہفتوں تک ہندو تنظیمیں جمعے کی نماز کے اجتماعات میں خلل ڈال رہی ہیں۔
پانچ نومبر کو اسی مقام پر ہندوؤں نے ایک ہندو میلے کے تحت پوجا بھی کی تھی۔
اس وقت کشیدگی میں اضافہ ہو گیا جب ان تنظیموں نے اس پوجا میں حکمران جماعت بی جے پی کے رہنما کپل مشرا کو بھی شرکت کی دعوت دے دی۔
#Gurgaon’s Sadar Bazaar Gurudwara is now open for our Muslim brothers to offer their daily namaz keeping in mind the recent events that took place in the city.
— Harteerath Singh (@HarteerathSingh) November 17, 2021
گروگرام کی جس جگہ پر مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکا گیا، اس پر بعد میں یعنی پانچ نومبر کو ’گوواردن پوجا‘ تہوار منایا گیا، جس میں بی جے پی کے نیتا کپل مشرا نے بھی شرکت کی۔ یہ وہی کپل مشرا ہیں جنہوں نے 2019 میں شہری ترمیمی بل کے خلاف پر امن احتجاج کرنے والے شہریوں کو کھلے عام دھمکایا تھا۔ اس کے کچھ ہی دنوں بعد شمال مشرقی دہلی میں ہندو مسلم فسادات ہوئے تھے۔
یوں تو کہنے کو یہ ’بھارت ماتا واہنی‘ اور ’سنیوکت ہندو سنگھرش اسمیتی‘ نامی کٹر انتہا پسند تنظیموں نے چلائی تھی لیکن بات اس وقت واضح ہوئی جب وزیر داخلہ امت شاہ نے بھی اس پر لب کشائی کی تھی۔
30 اکتوبر کو وزیر داخلہ نے اترا کھنڈ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’جب میں آ رہا تھا تو مجھے کہا گیا کہ آپ کو نہیں پتہ کہ آج سڑک بند ہو گی۔ میں نے کہا کیوں؟ تو کہنے لگے کہ جمعہ ہے اور مسلمان نماز پڑھیں گے۔‘
انہوں نے کانگریس پر بھی الزام لگایا کہ اس نے مسلمانوں کو نوازنے کے علاوہ اور کیا کام کیا ہے اور یہ کانگریس ہی ہے جو سڑکوں اور کھلی جگہوں پر نماز پڑھنے کی اجازت دیتی تھی۔
امت شاہ کی طرف سے کانگریس پر لگایا گیا کہ یہ الزام درست نہیں ہے کیونکہ اتنا عرصہ اقتدار میں رہتے ہوئے انہوں نے مسلمانوں کے لیے کوئی خاطر خواہ کام نہیں کیا۔ یہ صرف مسلمانوں کا کہنا نہیں بلکہ خود حکومتی اعداد و شمار بھی یہی کہتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس سے قبل 2018 میں بھی نماز والا معاملہ موضوع بحث بنا تھا، لیکن اس وقت گروگرام میں نہیں بلکہ دہلی اور یوپی کے سنگم پر واقع شہر نوئیڈا میں یہ معاملہ اٹھا تھا۔
نوئیڈا میں اداروں میں نوکری کرنے والے مسلمان بریک کے دوران پارکوں میں نماز ادا کرتے تھے۔ یوپی میں یوگی آدتیہ ناتھ کی حکومت ہے جو مسلمانوں کے کٹر خلاف سمجھے جانے والے بھاجپا سیاستدان ہیں۔ 2018 میں اتر پردیش پولیس نے نوئیڈا میں تمام پرائیویٹ کمپنیز کو یوپی سرکار کا پیغام بھیجا کہ کوئی بھی ملازم پارکوں میں نماز ادا نہیں کرے گا۔
نوئیڈا اور گروگرام دونوں شہروں کی خصوصیت یہ ہے کہ دہلی کے باہر زیادہ تر پرائیویٹ کمپنیز کے آفس انہی شہروں میں ہیں۔ دہلی سے باہر کمپنیز اس لیے بھی یہاں اپنے دفاتر کھولتی ہیں کیونکہ ایک تو یہ دہلی کے قریب تر ہیں اور دہلی کی میٹرو ان دونوں شہروں تک چلتی ہے اور دوسرا دہلی کے باہر کے لوگ بھی یہاں بآسانی ملازمت کے لیے آ جا سکتے ہیں۔
تبلیغی جماعت کے سالانہ اجتماع میں، جو ان کے مرکز نظام الدین میں پہلے سے ہی طے شدہ تھا، کرونا کے آتے ہی کچھ باہر کے لوگ پھنس گئے تھے، جس کے بعد میڈیا پر ایک سازشی واویلا کیا گیا۔ سال سے زیادہ عرصے کے لیے مرکز نظام الدین بند رہا تھا، جس کے بعد رواں سال اپریل میں دہلی ہائی کورٹ کے حکم پر مرکز میں نماز پڑھنے کی مشروط اجازت ملی۔
حکومت کی دہری پالیسی کا اندازہ یہیں سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک طرف مرکز پر کرونا کا بہانہ بنا کر تالا لگایا گیا لیکن وہیں الہ آباد جو اب پریاگ راج کہلاتا ہے میں دنیا کا سب سے بڑا میلہ ’کمبھ میلہ‘ منعقد کروایا گیا، جس میں کروڑوں زائرین حصہ لیتے ہیں۔
گذشتہ ماہ شمال مشرقی ریاست تریپورہ میں مسجدوں اور مسلمانوں کی جائیدادوں کو نقصان پہنچایا گیا اور تشدد کی ویڈیوز بھی وائرل ہوئیں۔ مین سٹریم میڈیا نے سُنی کو اَن سنی کر دیا۔ تریپورہ میں بھی بھارتیہ جنتا پارٹی کی حکومت ہے۔ اس سے پہلے رواں سال ہی پوڈو چری میں گورنر آرڈیننس کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف گھیرا تنگ کرنے کی کوشش بھی کی گئی تھی۔
پاکستان کا موقف
پاکستانی دفتر خارجہ نے بھارت میں مسلمانوں کی عبادات پر پابندی کے معاملے پر ردعمل ظاہر کیا ہے۔
پاکستانی دفتر سے جاری کیے جانے والے بیان میں کہا گیا ہے کہ ’پاکستان بھارتی ریاستوں اتر پردیش اور ہریانہ میں جہاں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کی حکومت ہے انتظامیہ کی ملی بھگت سے جنونی ہندوؤں کے مساجد پر حملوں اور توڑ پھوڑ پر بہت فکر مند ہے۔‘
بیان میں کہا گیا ہے کہ ’بین الاقوامی سطح پر اٹھائے گئے خدشات کے باوجود بھارت میں مسلمانوں، ان کی عبادت گاہوں، گھروں اور کاروبار پر حملے جاری ہیں۔‘