’میں دو بھارت سے آیا ہوں‘: کامیڈین ویر داس مشکل میں

دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہندو کارکنان نے ویر داس پر ملک کو بدنام کرنے کا الزام لگایا ہے۔

کامیڈین ویر داس 25 اپریل 2014 فلوریڈا میں اپنے شو کی ریہرسل کر رہے ہیں (تصویر: اے ایف پی)

بھارتی کامیڈین ویر داس کو دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہندو کارکنوں کی جانب سے آن لائن تنقید کا نشانہ بنایا جا رہا کیونکہ انہوں نے پیر کو جان ایف کینیڈی سینٹر واشنگٹن ڈی سی میں ایک مونولاگ میں کہا تھا کہ ’ان کا تعلق دو انڈیاؤں‘ سے ہے۔

دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہندو کارکنان نے ویرداس پر ملک کو بدنام کرنے کا الزام لگایا ہے۔

پروگرام میں اپنے حصے کے اختتام پر 42 سالہ مشہور سٹینڈ اپ کامیڈین نے اپنے وطن میں موجود تضادات پر ’دو بھارت‘ کے عنوان سے نظم پڑھی تھی۔

ویرداس نے اپنے چھ منٹ کے مونولاگ میں کسانوں کے احتجاج اور کووڈ 19 سے لے کر پیٹرول کی قیمتوں میں اضافے تک کے مسائل کا احاطہ کیا تھا۔

داس نے کہا: ’میرا تعلق ایک ایسے بھارت سے ہے جہاں ہم گرین (شرٹس) سے کھیلنے والی اپنی ٹیم کی حمایت کرتے ہیں لیکن ہر بار جب ہم گرین (شرٹس) سے ہار جاتے ہیں تو اچانک ہم غصے میں آ جاتے ہیں۔ میرا تعلق ایک ایسے بھارت سے ہے جہاں بچے ماسک لگا کر ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑتے ہیں اور اس کے ساتھ ہی میرا تعلق ایک ایسے بھارت سے ہے جہاں سیاسی رہنما ماسک پہنے بغیر بغلگیر ہوتے ہیں۔‘

داس ان الفاظ کے ساتھ کرکٹ کے میدان کے اندر اور باہر بھارت کی پاکستان کے ساتھ تاریخی رقابت کی جانب اشارہ کر رہے تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’بھارت کی کرکٹ ٹیم، پاکستانی کرکٹ کھلاڑیوں کے سبز رنگ کے یونیفارم کے مقابلے میں نیلے رنگ کی شرٹس پہنتی ہے۔‘

داس کے بقول: ’میرا تعلق ایسے بھارت کے ساتھ ہے جہاں ہم دن میں خواتین کی پوچا کرتے ہیں اور رات میں ان کا ’گینگ ریپ‘ کرتے ہیں۔ میرا تعلق ایسے بھارت سے ہے جہاں صحافت کو مردہ خیال کیا جاتا ہے کیونکہ خوبصورت لباس پہنے مرد سجے سجائے سٹوڈیوز میں ایک دوسرے کو تسکین پہنچاتے ہیں اور اسی وقت سڑکوں پر لیپ ٹاپ اٹھائے خواتین حقیقت بیان کرتی ہیں۔‘

داس سیاسی طور پر سمجھوتہ کرنے والے میڈیا اور ایک ایسے ملک میں خواتین کے خلاف بڑھتے ہوئے جرائم پر ہونے والی تنقید میں اپنی آواز شامل کر رہے تھے جہاں ان کی مختلف طرز کی ہندو دیویوں کی شکل میں پوجا بھی کی جاتی ہے۔

جہاں بہت سے لوگوں نے داس کی ’ایمانداری‘ کی وجہ سے تعریف کی ہے وہیں بعض افراد نے ’مزاح کی آڑ‘ میں بھارت مخالف پروپیگنڈے کا الزام لگایا ہے۔

 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 
 

A post shared by Vir Das (@virdas)

دائیں بازو کے بھارتی نیوز پورٹل ’اوپ انڈیا‘ نے داس کے مونولاگ کو بھارت کے خلاف ’بکواس‘ قرار دیا ہے۔

اوپ انڈیا نے لکھا: ’داس نے ہندوؤں کو برداشت سے عاری اور مسلمان دشمن کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کی۔‘

مزید برآں کہا کہ ’جب بھی بھارتی ٹیم پاکستان سے ہار جاتی ہے تو ہندو مسلمانوں کے دشمن بن جاتے ہیں۔ تاہم سچ سے بڑھ کر کچھ نہیں ہو سکتا۔‘

ایک اور ٹوئٹر صارف کے بقول: ’سوچیں کہ کوئی اور غیر ملکی کامیڈین بھارت میں ایسے کرے۔ ہماری قوم کا ان لوگوں کے سامنے مذاق اڑاتے ہوئے جنہیں پروا تک نہیں، تھوڑی سے ذمہ داری کا مظاہرہ کریں۔ ویسے کیا آپ کامیڈین بھی ہیں؟‘

بعض حلقوں نے داس کی حمایت بھی کی ہے۔ آل انڈیا کانگریس کمیٹی کے سابق سیکریٹری جنرل دگ وجے سنگھ نے لکھا: ’دو بھارت کی یہ ویڈیو ضرور دیکھیں۔ یہ بہترین طنز ہے۔ جہاں تک پسندیدہ چیزوں کی فہرست میں شامل کرنے کا تعلق ہے میں اسے شامل کرنا پسند کروں گا۔ دو بھارت میں سے ایک وہ ہے جو لوٹتا اور دوسرا وہ جو لٹتا ہے۔ ویر داس کیا آپ اتفاق کرتے ہیں؟‘

ٹیکنالوجی کے بارے میں خبریں دینے والے صحافی ابھیشک بخشی نے اضافہ کیا: ’ویر داس نے بہترین مزاح پیش کیا ہے۔ اس وقت ہمیں ایسے فن کی ہی ضرورت ہے۔‘

داس نے فوری طور پر ایک بیان جاری کیا جس میں انہوں نے سب سے کہا ہے کہ وہ پروگرام کے’ایڈٹ کیے گئے حصوں کے دھوکے میں نہ آئیں۔‘

انہوں نے ٹوئٹر پر لکھا کہ ’جس طرح کسی بھی قوم کے اندراندھیرا اور اجالا، خوبیاں اور خامیاں ہوتی ہیں۔ یہ بات کوئی راز نہیں ہے۔‘

انہوں نے مزید لکھا: ’مجھے اپنے ملک پر فخر ہے اور میں اس فخر کو دنیا بھر میں لے کر جاتا ہوں۔ میرے لیے دنیا میں کہیں بھی سراہنے والے لوگوں سے بھرا کمرہ خالصتاً محبت ہے۔ میں آپ سے وہی بات کہتا ہوں جو میں نے سامعین سے کہی۔ روشنی پرتوجہ دیں، اپنی عظمت کو یاد کریں اور پیار بانٹیں۔‘

بھارتی کامیڈین ماضی میں ردعمل کا سامنا کرتے رہے ہیں۔ خاص طور پر دائیں بازو کی طرف سے اس طنز پر جسے قدامت پسند قوم اور ہندو دھرم کی توہین سمجھتے ہیں۔

بھارتی کامیڈین منورفاروقی جنہوں نے اس لطیفے کی وجہ سے ایک مہینہ جیل میں گزار جو انہوں نے نہیں سنایا تھا، نے کہا ہے کہ قانون ہاتھ میں لینے والے دائیں بازو کے گروپس کی جانب دی جانے والی دھمکیوں اور بدسلوکی کی وجہ سے کام نہیں کر سکتے۔

© The Independent

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی فن