مسٹر 360، جو کسی بھی گیند کو کہیں بھی مار سکتے تھے

محض 37 سال کی عمر میں کرکٹ کو خیر باد کہنے والے اس شاندار کرکٹر کو میدان سے باہر بھی جنٹل مین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

کرکٹ کے شائقین اب اس بلے باز کو مزید نہیں دیکھ سکیں گے، جو وکٹ پر چاروں طرف گھوم کر کہیں بھی شاٹ کھیل سکتا تھا اورچشم زدن میں گیند کو باؤنڈری سے باہر پہنچا سکتا تھا(اے ایف پی فائل)

ابوظہبی میں نومبر میں گرمی شدت پر تو نہیں ہوتی لیکن اگر کرکٹ کے میدان میں اے بی ڈی ویلئیرز جیسا بلے باز ہو تو بولرز سخت سردی میں پسینہ پسینہ ہو سکتے ہیں۔

سال 2010 نومبر میں جنوبی افریقہ کے ساتھ دوسرا ٹیسٹ ہو رہا تھا اور پاکستان کی کپتانی مصباح الحق کے ہاتھوں میں تھی۔

پاکستان نے اس ٹیسٹ میں فاسٹ بولر تنویر احمد کو ٹیسٹ کیپ دی تھی جو عمر گل کے ساتھ ایک طرف سے بولنگ کر رہے تھے اور سخت بے جان وکٹ پر بھی جنوبی افریقہ کے تین زبردست بلے بازوں گریم سمتھ، پیٹرسن اور ہاشم آملہ کو 33 کے سکور پر پویلین بھیج چکے تھے۔

ایسے میں اے بی ڈی ویلئیرز اور جیک کیلس نے تنویر احمد کا سحر توڑا اور شاندار پارٹنر شپ کر کے پروٹیز کو مشکلات سے نکال لیا۔

اگرچہ تنویر احمد نے اس ٹیسٹ میں چھ کھلاڑی آؤٹ کیے۔ لیکن اے بی ڈی ویلئیرز نے اس ٹیسٹ کو یادگار بنا دیا۔

 انہوں نے 278 رنز کی شاندار اننگز کھیلی۔ جس میں 23 چوکے اور چھ چھکے شامل تھے۔ ڈی ویلئیرز کی اس اننگز کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا جس نے پاکستانی بولرز کو پریشان کر دیا تھا۔

ابراہم بینجمن ڈی ویلئیرز کا پورا کیرئیر زبردست اننگز سے بھرا ہوا ہے۔ وہ کرکٹ کی تاریخ کے واحد بلے باز ہیں جن کا ایک روزہ کرکٹ میں فی اننگز اوسط 50 رنز سے اوپر ہے اور سٹرائیک ریٹ 100 سے بھی زیادہ ہے۔

انہوں نے 114 ٹیسٹ میچوں میں 8765 رنز بنائے۔ جن میں 22 سنچریاں شامل ہیں۔ جب کہ ایک روزہ میچوں میں 25 سنچریوں کے ساتھ 9577 رنز بنائے۔

ان کے پاس دو ایسے اعزاز ہیں جو شاید کبھی نہ ٹوٹ سکیں۔ انہوں نے کرکٹ کی تاریخ کی تیز ترین نصف سنچری 16 گیندوں پر اورتیز ترین سنچری 31 گیندوں پر مکمل کی۔

یہ کارنامہ ویسٹ انڈیز کے خلاف 2015 میں انجام دیا۔ جو اب تک ریکارڈ ہے۔

انھیں آئی پی ایل کا سب سے کامیاب بلے باز کہا جاتا ہے انہوں نے 40 میچوں 5162 رنز بنائے۔ جس میں ان کی شہرہ آفاق 133 رنزکی اننگز بھی شامل ہے جو بجلی سے زیادہ تیز رفتاری سے بنائی تھی ۔

ان کو وکٹ پر پوری طرح گھوم کر شاٹ مارنے کی صلاحیت کی وجہ سے مسٹر 360 کہا جاتا ہے۔

کیونکہ وہ جس آسانی سے آف سٹمپ کی گیند کو مڈوکٹ پر باؤنڈری سے باہر پہنچاتے تھے وہ ان ہی کا خاصا ہے۔ وہ کسی بھی جگہ آنے والی گیند کو کہیں بھی مارنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔

ان کا کیرئیر تو 2004 میں انگلینڈ کے خلاف شروع ہوا۔ لیکن ان کو صحیح شہرت 2010 میں ملی جب انہوں نے کیلینڈر ائیر میں 996 رنز بنائے۔

وہاں سے ان کے بے مثال کیرئیر کا نیا روپ شروع ہوا جو 2021 تک قائم رہا۔ حالانکہ وہ جنوبی افریقہ کی ٹیم کو 2018 میں ہی الوداع کہہ چکے تھے لیکن ٹی 20 لیگز میں ان کی ہر جگہ طلب تھی۔

وہ ایک بہترین جارحانہ بلے باز تھے اور کھیل کو بدلنےکی صلاحیت رکھتے تھے۔ ان کی اضافی خوبی وکٹ کیپنگ تھی۔

 انہوں نے تینوں فارمیٹ کی کرکٹ میں وکٹ کیپنگ کی ہے۔ تاہم 2016 میں کمر کی چوٹ کے باعث وہ کیپنگ سے علیحدہ ہوگئے تھے۔

واپسی کی دوبارہ خبریں

ڈی ویلئیرز کے ریٹائر ہونے کے بعد جنوبی افریقہ کی ٹیم لڑکھڑا گئی تھی اور ہر فارمیٹ میں ہار رہی تھی۔

ایسے میں خبریں آئی تھیں کہ ڈی ویلئیرز دوبارہ آنے کے لیے تیار ہیں لیکن جنوبی افریقہ بورڈ نے اس کی تردید کردی تھی۔ کیونکہ بورڈ خود سے ریٹائر ہونے والےمشہور بلے باز کو دوبارہ موقع دینا نہیں چاہتا تھا۔

ان کی مشہور اننگز کی تو بہت طویل فہرست ہے لیکن کچھ ایسی ہیں جو تاریخ کی یادگار اننگز بن گئی ہیں۔

پرتھ میں آسٹریلیا کے خلاف 2008 میں ان کی 106 رنز کی اننگز یادگار اننگز تھی۔ جس نے آسٹریلیا کے 414 رنز کے ہدف کو عبورکرنے میں اہم کردار ادا کیا تھا۔

پرتھ میں ہی 2012 میں 169 رنز کی ایک اور شاہکار اننگز ان کے نام ہے۔

ڈی ویلئیرز صرف جارحانہ بیٹنگ نہیں کرتے تھے بلکہ وقت پڑنے پر میچ کو ڈرا کرنے کی اننگز بھی کھیل سکتے تھے۔ آسٹریلیا کے خلاف2012 میں ایڈیلیڈ میں انہوں نے پورے دن میں صرف 33 رنز کی اننگز کھیلی لیکن یقینی شکست کو ٹال دیا تھا۔

ڈی ویلئیرز نے آئی پی ایل میں بارہا مرتبہ ایسی اننگز کھیلیں جو رائل چیلینجرز بنگلور کو جیت دلا گئیں۔

2015 میں ممبئی انڈینز کے خلاف 133 رنز کی اننگز کرکٹ کی تاریخ کی یادگار اننگز میں شمار ہوتی ہے۔

انہوں نے ایک روزہ کرکٹ میں 25 سنچریاں بنائی ہیں جس میں ہر سنچری 100 کے سٹرائیک ریٹ سے بنی تھی۔

محض 37 سال کی عمر میں کرکٹ کو خیر باد کہنے والے اس شاندار کرکٹر کو میدان سے باہر بھی جنٹل مین کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔

وہ جس قدر میدان میں ذہین کرکٹر نظر آتے تھے میدان سے باہر اتنے ہی سادہ اور بااخلاق انسان ہیں۔

کرکٹ میں اب بدزبانی اور طنزیہ فقرے کھیل کا حصہ بنتے جارہے ہیں۔ لیکن ڈی ویلئیرز ہمیشہ اس قسم کی کرکٹ سے دور رہے۔ ان کی سادگی اور خوش اخلاقی کے تو سب ہی گرویدہ ہیں۔ لیکن ان کے ساتھی کرکٹرز انہیں ایک آئیڈیل کرکٹر مانتے ہیں۔

جمعہ کو جب انہوں نے ہر قسم کی کرکٹ سے سبکدوش ہونے کا اعلان کیا تو دنیا بھر سے ان کے مداح اور ساتھی کرکٹرز مسلسل خراج تحسین پیش کررہے ہیں۔

وراٹ کوہلی اور وہ رائل چیلیجرز میں 13 سال ساتھ رہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

جہاں ان دونوں نے متعد ایسی اننگز کھیلی جو ہمیشہ یاد رہیں گی۔ کوہلی نے انھیں بھائی کہہ کر مخاطب کیا ہے اور شکریہ ادا کیا کہ جتنا انہوں نے رائل چیلینجرز کے لیے کیا۔

شین واٹسن، کرس گیل، ڈیل سٹین، بابر اعظم، فاف ڈوپلیسی، جوز بٹلر، مہیلا جے وردھنے، انیل کمبلے، عرفان پٹھان، راشد خان، سمیت سینکڑوں کرکٹرز اور ان کے لاکھوں مداحوں نے ڈی ویلئیرز کی ریٹائرمنٹ پر انہیں خراج تحسین پیش کیا ہے۔

ڈی ویلئیرز ایک تاریخ ساز بلے باز تھے یا زبردست انسان، اس کا فیصلہ کرنا مشکل ہے۔ کیونکہ ہر وقت چہرے پر مسکراہٹ سجائے ڈیویلئیرزز ایک ایسے انسان کے روپ میں نظر آتے تھے جو اپنی شاندار بیٹنگ سے زیادہ دوسروں کو سکھانے پر آمادہ رہتا ہو۔

کرکٹ کے شائقین اب اس بلے باز کو مزید نہیں دیکھ سکیں گے، جو وکٹ پر چاروں طرف گھوم کر کہیں بھی شاٹ کھیل سکتا تھا اورچشم زدن میں گیند کو باؤنڈری سے باہر پہنچا سکتا تھا۔

جس کی بیٹنگ دیکھنے تماشائیوں کا ہجوم امڈ پڑتا تھا۔ جو وکٹ پر اس شان سے شاٹ کھیلتا تھا جیسے کسی سلطنت کو ایک وارمیں فتح کرلے۔

اب اس عظیم بلے باز نے ہمیشہ کے لیے اپنے پیڈز اتار دئیے ہیں۔

مسٹر 360 ڈگری !!!!!! شکریہ کہ تم نے 18 سال تک کرکٹ کی دنیا کو اپنے کھیل سے سجائے رکھا اور دنیا تمہارے انداز کے سحرمیں آج بھی جکڑی ہوئی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ