عالمی منڈیوں میں تیل کی کم ہوتی قیمتوں سے عوام میں امید پیدا ہو چلی ہے کہ پاکستانی مارکیٹ پر بھی اس کا مثبت اثر پڑے گا۔
جنوبی افریقہ میں کرونا وائرس کی نئی قسم کی تشخیص، جرمنی، آسٹریا میں لاک ڈاؤن اور عالمی طاقتوں کا تقریباً آٹھ کروڑ بیرل تیل دفاعی ذخیروں سے نکالنے کے اعلان کے بعد عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمت میں ایک دن میں 10 فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔
فی بیرل تیل تقریباً 82 ڈالرز سے کم ہو کر 73.45 ڈالرز فی بیرل تک آ چکا ہے۔ اس کا فائدہ پاکستانی عوام کو ہوگا یا نہیں اس حوالے سے وزرات پیٹرولیم کے ایک عہدے دار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ آنے والے دن اچھی خبر لاتے دکھائی نہیں دے رہے کیونکہ حکومت عوام کو ریلیف دینے کے ارادہ نہیں رکھتی۔
اس کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ حکومت کا پیٹرولیم مصنوعات پر پیٹرولیم لیوی صفر ہونے کا دعوی آدھا درست ہے۔ پیڑول پر پیٹرولیم لیوی صفر ہے لیکن ڈیزل پر ابھی بھی تقریباً نو روپے پیٹرولیم لیوی وصول کی جا رہی ہے۔
اگر پیٹرولیم مصنوعات پر ٹیکس کی بات کریں تو فی لیٹر پیٹرول پر تقریباً 26 روپے سیلز ٹیکس وصول کیا جا رہا ہے اور ڈیزل پر تقریباً ایک روپیہ فی لیٹر سیلز ٹیکس چارج کیا جاتا ہے۔
اچھا منافع کمانے کے باوجود سرکار ماہانہ بنیادوں پر چار روپے پیٹرولیم لیوی بڑھانے کا اعلان کر چکی ہے جو کہ ایک اندازے کے مطابق جون 2022 تک بڑھائی جاتی رہے گی۔
اس وقت پیٹرول پر لیوی صفر ہے جسے 30 روپے تک لے جانے کا ہدف ہے۔ حفیظ شیخ نے مارچ 2021 میں پیٹرولیم لیوی پانچ روپے سے بڑھا کر 30 روپے کرنے کا معاہدہ کیا تھا۔
جون 2021 میں پیش کیے گئے بجٹ میں 601 ارب روپے کی آمدن ظاہر کی گئی جو کہ پیٹرولیم لیوی کی مد میں ہے۔
پاکستان سالانہ تقریباً 20 ارب لیٹر پیٹرولیم مصنوعات استعمال کرتا ہے۔ اگر اسے 30 سے ضرب دی جائے تو یہ 600 ارب روپے بنتی ہے۔
حکومت نے وعدہ کرنے اور بجٹ میں ظاہر کرنے کے باوجود لیوی نہیں بڑھائی تھی۔ اب آئی ایم ایف نے قیمت بڑھانے کے لیے الٹی میٹم دیا ہے۔
مبینہ طور پر یکم دسمبرسے چار روپے فی لیٹر اضافے کی شروعات کے بعد آئی ایم ایف سے قرض کی اگلی قسط موصول ہو گی۔
اگر عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم نہ ہوئیں تواندازے کے مطابق جون 2022 تک پیٹرول 170 سے 180 روپے فی لیٹر تک پہنچ سکتا ہے، جس سے مہنگائی کا نیا طوفان آئے گا۔
پاکستان میں پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں پر پائے جانے والے شک و شبہات کے حوالے سے میں نے سابق حکومتی معاشی ترجمان فرخ سلیم سے رابطہ کیا تو انھوں نے بتایا کہ پاکستان میں تیل بین القوامی مارکیٹ کے مقابلے میں 15 سے 20 فیصد مہنگا بیچا جاتا ہے۔
یہ اضافہ ٹیکسز کے علاوہ ہے۔اگر یہ منافع حکومتی خزانے میں جمع ہو جائے تو اسے وصول کرنے میں کوئی حرج نہیں لیکن لمحہ فکریہ یہ ہے کہ یہ منافع تیل تقسیم کار کمپنیوں اور کچھ آئل ریفائنری کی جیبوں میں چلا جاتا ہے۔
عوام کو ان معلومات سے بے خبر رکھا جاتا ہے جبکہ ہونا یہ چاہیے کہ سرکار پیٹرولیم مصنوعات کی خریداری سے لے کر پیٹرول پمپس تک پہنچانے کا پورا حساب ماہانہ بنیادوں پر عوام کے سامنے رکھے۔ ممکنہ طور پر مافیاز کے بےنقاب ہونے کے ڈر سے اسے چھپایا جاتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اصول کے مطابق پیٹرولیم مصنوعات کو حکومتی سطح پر کنٹرول کرنا کسی طرح مناسب نہیں۔
یہ سرکار کا کام نہیں کہ وہ تیل کی سپلائی اور قیمتوں کے ریٹس طے کرے اور پھر اسے بیچے، یہ کام نجی شعبے کا ہے، جیسا کہ امریکہ برطانیہ حتی کہ بھارت میں بھی ہو رہا ہے۔
نجی کمپنیاں مختلف کوالٹی کی پیٹرولیم مصنوعات درآمد کرتی ہیں اور مناسب منافع رکھ کر بیچتی ہیں۔ امریکہ میں تو ہر دو تین کلومیٹر کے فاصلے پر مختلف معیار اور ریٹس کی پیٹرولیم مصنوعات دستیاب ہوتی ہیں۔
تقریبا ہر پمپ پر ریٹ مختلف ہوتا ہے آپ جہاں سے ڈلوانا چاہیں تیل ڈلوا سکتے ہیں۔ مقابلے کی فضا قائم ہونے کی وجہ سے سستا پیٹرول مل جاتا ہے۔
پیٹرولیم کمپنیوں کو اسی اصول کے تحت کاروبار کرنے کی اجازت دینی چاہیے جس پر موبائل نیٹ ورک کمپنیاں کام کر رہی ہیں۔
پاکستان میں موبائل کال کے ریٹس دنیا کی نسبت بہت کم ہیں جس کی بنیادی وجہ مقابلے کی فضا ہے۔
فرخ سلیم صاحب کی جانب سے پیش کیا گیا حل قابل عمل دکھائی دیتا ہے لیکن اس کے لیے سرکار کی دلچسپی ہونا ضروری ہے۔ فی الحال حکومت کی دلچسپی پیٹرول پمپ مالکان کا منافع بڑھانے میں ہے۔
حکومت کے پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن سے معاملات طے پا گئے ہیں، جس کے تحت پیٹرول پر تقریباً 99 پیسے اور ڈیزل پر تقریباً 83 پیسے منافع بڑھایا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس کا اطلاق یکم دسمبر سے ہو گا۔پیٹرول ڈیلرز ایسوسی ایشن کے چیئرمین عبدالسمی خان کے مطابق حکومت سے منافعے کی شرح بڑھوانا ناگزیر ہو گیا تھا۔
مہنگائی کے دور میں پیٹرول پمپ کے اخراجات بڑھ چکے ہیں، کاروبار نقصان پر نہیں چلا سکتے۔ ہمارا مطالبہ چھ روپے اضافے کا تھا لیکن ہم مطمئن ہیں کہ کچھ تو بڑھایا۔
ڈیلرز خوش ہیں، حکومت شادیانے بجا رہی ہے لیکن عوام تیل کی قیمت میں دوبارہ اضافے کے باعث پریشان دکھائی دیتی ہے۔
عوامی سطح پر یہ رائے بھی پائی جاتی ہے کہ سرکار اور پیٹرولیم ڈیلرز ایسوسی ایشن کی ملی بھگت سے پہلے احتجاج کا منصوبہ بنایا گیا اور بعد میں حالات قابو کرنے کے نام پر منافع بڑھا دیا گیا، جس کی ادائیگی عوام کی جیبوں سے کی جائے گی۔
سرکار اگر حقیقی معنوں میں عوام کے مسائل حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہے تو منافعے میں اضافے کے ساتھ پیٹرول پمپ مالکان کو پیٹرول چوری کرنے سے روکے۔
عوامی سطح پر یہ رائے عام پائی جاتی ہے کہ تقریباً تمام پیٹرول پمپس ناپ تول میں کمی کرتے ہیں۔ اگر منافع بڑھایا ہے تو جرمانہ بھی بڑھایا جائے اور کنٹرولز سخت کیے جائیں۔
اس کے علاوہ منافع کا بوجھ عوام کے کندھوں پر ڈالنے کی بجائے سیلز ٹیکس میں کمی کر کے پورا کیا جا سکتا ہے۔
آنے والے دنوں میں سرکار ایسا کرے گی یا نہیں اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن حالات حاضرہ کے پیش نظر اس کے امکانات کم دکھائی دیتے ہیں۔
نوٹ: یہ مضمون راقم کی اپنی رائے ہے اور ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔