نور مقدم قتل کیس: ’ظاہر جعفر ذہنی مریض ہے میڈیکل کرایا جائے‘

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں دائر کی جانے والی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ملزم کی باقاعدہ جانچ کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔

نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر 6 اکتوبر 2021 کو  عدالت میں پیشی کے بعد  کمرہ عدالت  سے باہر آ رہے ہیں (تصویر: انڈپینڈنٹ اردو فائل )

نور مقدم قتل کیس کے مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کے وکیل سکندر ذوالقرنین نے اسلام آباد کی مقامی عدالت میں بدھ کو درخواست دائر کی ہے کہ ملزم ذہنی مریض ہیں ان کا طبی معائنہ کرایا جائے۔

ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں دائر کی جانے والی درخواست میں استدعا کی گئی ہے کہ ملزم کی باقاعدہ جانچ کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دیا جائے۔

درخواست میں کہا گیا ہے کہ مرکزی ملزم نے عدالت کے سامنے بھی ایسا رویہ برتاؤ کیا ہے جو کہ ملزم کی ذہنی حالت عکاسی کرتا ہے اور ذرائع ابلاغ نے بھی عدالت کے سامنے مرکزی ملزم کے رویے کو رپورٹ کیا ہے۔

ظاہر ذاکر جعفر کی درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالت نے مرکزی ملزم سمیت تمام ملزمان پر فرد جرم عائد کی تاہم مرکزی ملزم نے اس پر کوئی ردعمل نہیں دیا کیوں کہ انہیں عدالتی کارروائی سمجھ نہیں آرہی تھی۔

درخواست میں یہ بھی موقف اپنایا گیا ہے کہ عدالت مرکزی ملزم کی ذہنی حالت کا مشاہدہ کر چکی ہے اس کے باجود گواہان کے بیانات ملزم کی غیر موجودگی میں ریکارڈ کرتی رہی ہے جس سے نہ صرف ٹرائل متاثر ہوتا ہے بلکہ آئین کے آرٹیکل 10 اے کے تحت ملزم کو فیئر ٹرائل کے حق سے بھی محروم رکھا گیا ہے۔

مدعی کے وکیل شاہ خاور نے بعد از سماعت ذرائع ابلاغ سے گفتگو میں کہا کہ ظاہر ذاکر جعفر کے وکیل نے درخواست دی ہے کہ ’ملزم کا جو رویہ عدالت میں رہا کہ اسے ایک دو دفعہ زبر دستی یہاں سے نکالا گیا اور اس کی ذہنی حالت ٹھیک نہیں ہے یا وہ پاگل ہے یا لونیٹک ہے، تو انہوں نے باقاعدہ ایک درخواست دے دی ہے کہ وہ الزامات کو نہیں سمجھ سکا اور اپنا دفاع نہیں کرسکتا تو اس کا طبی معائنہ کرایا جائے۔‘

انہوں نے کہا کہ ’ظاہر ذاکر جعفر کے لیے میڈیکل بورڈ تشکیل دینے کی درخواست مقدمے کی ابتدا میں نہیں دی گئی ہے اور اس مرحلے پر دی گئی ہے جس سے بظاہر لگتا ہے کہ ملزم کو سکھایا گیا تھا کہ وہ عدالت میں ایسی حرکتیں کرے تاکہ لگے کہ وہ ذہنی مریض ہے اور ہم اس کا قانونی طریقے سے جواب دیں گے۔‘

نور مقدم قتل کیس میں گواہوں کے بیانات پر جرح کا سلسلہ جاری ہے۔ بدھ کے روز ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں مرکزی ملزم ظاہر ذاکر جعفر کو عدالت میں پیش کیا گیا۔

ملزم ظاہر ذاکر جعفر، چوکیدار افتخار اور مالی جان محمد کو بھی ایڈیشنل سیشن جج عطا ربانی کی عدالت میں پیش کیا گیا۔ ملزمان کو حاضری لگا کر واپس بخشی خانہ بھجوا دیا گیا۔

بدھ کی سماعت میں عدالت نے گواہ مدثر، اے ایس آئی زبیر اور ڈاکٹر انعم، ڈاکٹر سائر علی اور ڈاکٹر حماد کو بیان کے لیے طلب کر رکھا تھا۔

استغاثہ کے گواہ ڈاکٹر حماد پر ملزمان کے وکلا نے جرح مکمل کی تو عدالت نے استفسار کیا کہ ملزمہ عصمت آدم جی کے وکیل اسد جمال کہاں ہیں؟

معاون وکیل نے عدالت کو بتایا کہ ’وہ راولپنڈی کسی کیس میں مصروف ہیں اس لیے عدالت نہیں آئے۔‘

استغاثہ کی گواہ ڈاکٹر انعم نے عدالت کو بتایا کہ ’14 اگست کو امجد، دلیپ کمار، ثمر عباس، عبدالحق، طاہر ظہور اور وامق ریاض کے خون کے نمونے لیے تھے۔15 اگست کو محمد افتخار اور جمیل کے خون کے نمونے لیے گئے، گواہ ڈاکٹر انعم نے کہا کہ میں نے کسی ملزم کی ظاہری شناخت نہیں لکھی اور نہ میرے سامنے کسی کو شناخت کیا گیا۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اے ایس آئی محمد زبیر نے بطور گواہ عدالت میں بیان دیتے ہوئے بتایا کہ ’20 جولائی کو شام سات بجے مجھے فون پر اطلاع ملی جس پر میں عابد کانسٹیبل، ہیڈکانسٹیبل اعتزاز جائے وقوعہ پر پہنچے۔‘

’مکان نمبر 7 میں داخل ہوکر بالائی منزل کے آخری کمرے میں پہنچے جہاں پہلے سے کچھ لوگ موجود تھے۔‘

انہوں نےبتایا کہ ’جب کمرے کے اندر گئے تو خاتون کی لاش پڑی تھی جس کا گلا کٹا ہوا پڑا تھا۔ اس وقت چار پانچ بندوں نے ملزم ظاہر جعفر کو قابو کیا ہوا تھا۔ یہ لوگ ہمیں دیکھتے ہی وہاں سے نکل گئے اور ہم نے ملزم کوقابو کرلیا۔‘

انہوں نے مزید کہا کہ ’ملزم نے اپنا نام ظاہر بتایا اور لڑکی کا نام نورمقدم بتایا۔ لڑکی کے والد شوکت کا فون نمبر بھی ملزم ظاہر ذاکر جعفر نے ہمیں دیا تھا۔‘

جب اے ایس آئی یہ بیان ریکارڈ کروا رہے تھے تو نور مقدم کی بہن سارہ مقدم جو والد کے ہمراہ کمرہ عدالت میں موجود تھیں وہ اس منظر کشی سے آبدیدہ ہو گئیں۔

واضح رہے کہ 20 جولائی کی شام اسلام آباد کے سیکٹر ایف سیون میں سابق سفیر شوکت مقدم کی صاحبزادی نور مقدم کا بے دردی سے قتل کر دیا گیا تھا۔

جس کے بعد ملزم کو موقع واردات سے حراست میں لے لیا گیا تھا۔

ملزم ظاہر ذاکر جعفر مشہور بزنس مین ذاکر جعفر کے صاحبزادے ہیں۔ پولیس نے 24 جولائی کوجرم کی اعانت اور شواہد چھپانے کے جرم میں ملزم کے والدین ذاکر جعفر اور ان کی اہلیہ عصمت آدم جی سمیت دو گھریلو ملازمین کو بھی تفتیش کے لیے حراست میں لیا تھا۔

ملزم کی والدہ کی ضمانت ہو چکی ہے جبکہ والد اور دیگر ملوث ملزمان اڈیالہ جیل میں ہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان