انتخابی سیاست کا آغاز ہوا چاہتا ہے

حکمران جماعت پی ٹی آئی کے الیکشن موڈ میں بھرپور طریقے سے نہ آنے کی ایک بڑی وجہ خراب معیشت، مہنگائی اور گورننس پر اٹھنے والے وہ سوالات ہیں جو بتدریج بڑھتے جا رہے ہیں۔

وزیراعظم عمران خان میانوالی میں 11 دسمبر، 2021 کو ترقیاتی منصوبوں کا افتتاح کر رہے ہیں (اے ایف پی)

حکمراں پاکستان تحریک انصاف اور پاکستان مسلم لیگ ن کے علاوہ ملک کی دیگر سیاسی جماعتیں انتخابات کے موڈ میں جا چکی ہیں۔

سندھ میں سیاست بلدیاتی ترمیمی بل کے گرد گھومتی لسانی سیاست کی طرف نکل چکی ہے۔ جو بھی کہا اور کہلوایا جا رہا ہے وہ آئندہ انتخابات کی پیش بندی ہی ہے۔

خیبر پختونخوا کے 17 اضلاع ‎میں 19 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات ہو رہے ہیں ‎جہاں اس دفعہ پی ٹی آئی کے کلین سوئپ کے امکانات خاصے مخدوش نظر آ رہے ہیں۔

‎عوامی نیشنل پارٹی، جے یو آئی، پاکستان پیپلز پارٹی یا پھر جماعت اسلامی سر توڑ زور لگا رہی ہیں۔

تحریک انصاف الیکشن لڑ تو رہی ہے لیکن چند اضلاع کے علاوہ نہ تو ان کی توانائی سے بھر پور ٹیم نظر آ رہی ہے، نہ ہی ان کے کارکنان میں وہ جذبہ دکھ رہا ہے جو 2013 اور 2018 کے انتخابات میں دیکھا گیا۔

‎تحریک انصاف کے الیکشن موڈ میں بھرپور طریقے سے نہ آنے کی ایک بڑی وجہ خراب معیشت، مہنگائی اور گورننس پر اٹھنے والے وہ سوالات ہیں جو بتدریج بڑھتے جا رہے ہیں۔

چاہے مرکز ہو یا پی ٹی آئی کا لاڑکانہ کہلانے والا صوبہ خیبر پختونخوا، پی ٹی آئی صرف اور صرف دفاعی سیاست کرتی دکھ رہی ہے۔

منی بجٹ آنے کی شنید میں جیسے جیسے آئی ایم ایف کی شرائط لاگو ہوتی جائیں گی، تحریک انصاف اپنی پرفامنس کے طعنوں تلے بظاہر دبتی جائے گی۔

عمران خان نے میانوالی میں جلسہ کر کے یہ ثابت کرنے کی کوشش ضرور کی کہ وہ ابھی بھی عوام میں مقبول ہیں۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وقت خان صاحب کا ہاتھ عوام کی نبض سے خاصا دور ہو چکا ہے۔

وہ یہ یقین کرنے کو تیار نہیں کہ ان کی حکومت تیزی سے مقبولیت کھو رہی ہے۔ ان کی کابینہ کے سینیئر وزرا تواتر سے کہہ رہے ہیں کہ ہم اپنے حلقوں میں اب نہیں جا سکتے۔

‎بات اگر ن لیگ کی کریں تو مفاہمت کا بیانیہ مزاحمت پر حاوی ہو تو چکا ہے۔ شہباز شریف کو وزارت عظمی کا امیدوار بھی بظاہر مان لیا گیا ہے۔

لیکن حتمی فیصلہ سازی میں ابہام کے باعث ن لیگ ابھی تک الیکشن کے موڈ میں نہیں جا پا رہی۔

عملی سیاست کے آغاز میں تاخیر پر ن لیگ کو سیاسی نقصان تو ہو رہا ہے، خصوصاً جب جنوبی پنجاب کے ’الیٹیبلز‘ نے پیپلز پارٹی کو سنجیدہ آپشن کے طور پر لینا شروع کر دیا ہو۔

‎لیکن ن لیگ کی قیادت مصر ہے کہ ابھی ان کے پاس وقت ہے اور اس کی بڑی وجہ وہ یہ سمجھتے ہیں کہ پاکستان کو درپیش چینلجز سے نکالنے کے لیےاس وقت ٹیم صرف انہی کے پاس موجود ہے۔

‎پاور کوریڈوز میں یہ بات زیر بحث آ رہی ہے کہ خراب معیشت ہو یا بحران میں گھرا توانائی سیکٹر، شاہد خاقان عباسی، مفتاح اسماعیل، خرم دستگیر اور احسن اقبال کی شکل میں ن لیگ کے پاس ایسی ٹیم موجود ہے جو نہ صرف صلاحیت اور اہلیت رکھتی ہے بلکہ کسی دوسری جماعت کے پاس اتنی توانا ٹیم اس وقت موجود نہیں۔

‎لیکن کس کو نہیں معلوم کہ عوام کی قسمت کے فیصلوں میں صرف ووٹ اور ٹیم کی اہلیت نہیں، بہت سے عوامل کا عمل دخل ہوتا ہے۔

ن لیگ اور اسٹیبلشمنٹ میں اعتماد کا فقدان ن لیگ کی سیاست کے تعین میں ایک بڑی رکاوٹ تو ہے لیکن معاملات آہستہ صحیح آگے کی طرف ہی بڑھ رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

پیپلز پارٹی کی سیاست کو دیکھا جائے تو پارٹی نے پختونخوا سے لے کر پنجاب اور سندھ تک مخالف سیاسی جماعتوں کو فرنٹ فٹ پر آ کر چیلنج کرنا شروع کر دیا ہے۔

لاہور کے ضمنی انتخابات میں پارٹی کے ناقابل یقین 30 ہزار سے زیادہ ووٹ ہوں، آصف علی زرداری کی کھل کر نوازشریف پر تنقید ہو یا پھر کراچی میں بلاول بھٹو کا ایم کیو ایم کو چیلنج کرنا اور قدم جمانے کی کوششیں ہوں پیپلز پارٹی کا اعتماد بتا رہا ہے کہ انہوں نے آئندہ عام انتخابات کے لیے اپنی سمت کا تعین کر لیا ہے۔

ڈیل کے الزامات صحیح ہیں یا غلط یہ بحث پھر صحیح لیکن پیپلز پارٹی کو اس بات کا ادراک ضرور ہونا چاہیے کہ اقتدار کے سٹیج کے قریب پہنچتے ہی کبھی کبھار کندھا سرک جاتا ہے، چاہے آپ سب کے سامنے فرنٹ سے ہی سٹیج پر چڑھنے کی کوشش کیوں نہ کر رہے ہوں۔

ن لیگ عملی سیاست کی طرف سرک رہی ہے اور پیپلز پارٹی عملی سیاست کا آغاز زور و شور سے کر چکی ہے۔

دیکھنا یہ ہے کہ نواز شریف کا تجربہ کمال دکھائے گا اور وہ بیک ڈور سیڑھی کے ذریعے استقبال کرواتے ہوئے سٹیج تک پہنچتے ہیں یا زرداری صاحب اپنی جادوئی چھڑی سے فرنٹ سے ہی سٹیج پر قابض ہونے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں۔


نوٹ: یہ تحریر مصنف کی تجزیے پر مبنی ہے۔ ادارے کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

زیادہ پڑھی جانے والی زاویہ