یوکرین جنگ کے خدشات: امریکہ اور روس کے اعلیٰ سطح مذاکرات

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن روسی مطالبات کو ’دکھاوا‘ قرار دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ان مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ ’روس نے یوکرین کی کنپٹی پر بندوق تان رکھی ہے۔

24 ستمبر 2021 کی اس تصویر میں یوکرینی فوج کے اہلکاروں کو امریکی اور نیٹو ممالک کے اہلکاروں کے ساتھ کی جانے والی مشترکہ فوجی مشقوں کے دوران دیکھا جا سکتا ہے(اے ایف پی فائل)

یوکرین کے معاملے پر امریکہ اور روس کے درمیان جینیوا میں اعلی سطح کے مذاکرات کا آغاز اتوار کو ہو رہا ہے۔ جبکہ وائٹ ہاوس کے مطابق امریکہ روس کے ساتھ میزائل پروگرام سمیت فوجی مشقوں جیسے اہم معاملات پر بات چیت کے لیے بھی تیار ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روس اور مغربی ممالک کے درمیان یوکرین کے معاملے پر شدید کشیدگی پائی جاتی ہے جبکہ روس مغربی ممالک کے ساتھ ایک نئی سکیورٹی حکمت عملی پر بات کرنا چاہتا ہے لیکن اسے اس وقت یوکرین کی سرحد سے اپنے فوجی واپس بلانے پر بھرپور دباؤ کا سامنا ہے۔

ان اعلی سطح کے مذاکرات میں روسی نمائندوں کی نیٹو کے علاوہ یورپی سکیورٹی اینڈ کوآپریشن تنظیم کے نمائندوں سے بھی ملاقات ہو گی جبکہ امریکہ اپنے یورپی اتحادیوں کو یقین دہانی کروا رہا ہے کہ انہیں اس معاملے میں نظر انداز نہیں کیا جائے گا۔

روس نے گذشتہ سال سے ہی یوکرین کی سرحد کے قریب ہزاروں فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ روس کا مطالبہ ہے کہ نیٹو اس بات کی ضمانت دے کہ وہ سابقہ سوویت یونین کی ریاستوں میں مزید اڈے قائم اور مشرق کی سمت مزید توسیع نہیں کرے گا۔

جینیوا میں ہونے والے ان مذاکرات میں امریکہ کی نمائندگی نائب وزیر خارجہ وینڈی شرمن کریں گی لیکن وہ ان مذاکرات سے قبل ہی واضح کرچکی ہیں کہ ان مذاکرات کے حوالے سے ماسکو کی کئی تجاویز قابل عمل نہیں ہیں۔

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان کے مطابق سوموار کو ہونے والے یہ مذاکرات اب اتوار کو اس وقت شروع ہوں گے جب امریکی نائب وزیر خارجہ روس کے نائب وزیر خارجہ سرگے ریابکوف کے ساتھ عشائیے میں شریک ہوں گی۔

اُدھر امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن روسی مطالبات کو ’دکھاوا‘ قرار دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ ان مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ ’روس نے یوکرین کی کنپٹی پر بندوق تان رکھی ہے۔‘

جمعے کو اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ ’ہم روسی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہیں لیکن ایک سفارتی حل اب بھی ممکن ہے اگر روس اسے چنتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یاد رہے گذشتہ سال جون میں جنیوا میں ہی امریکی صدر جوبائیڈن اور روسی صدر ولادی میر پوتن کی ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں صدور نے ’استحکام پر مبنی مسلسل مذاکرات‘ پر اتفاق کیا تھا جو وینڈی شرمن اور ریابکوف کے درمیان ہونے تھے۔

اس ملاقات کے بعد دونوں صدور کے درمیان دو بار فون پر بھی بات ہو چکی ہے جس میں امریکی صدر نے روسی صدر کو یوکرین پر حملہ کرنے سے باز نہ رہنے کی صورت میں سنگین نتائج کی تنبیہ کی ہے۔

امریکہ نے روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کی صورت میں سخت اقدامات کی دھمکی دی ہے جن میں روسی صدر کے قریبی حلقے میں موجود افراد پر پابندیاں، جرمنی کو جانے والے روسی نورڈ سٹریم ٹو کی معطلی اور مزید سخت قدم کے طور پر روس کو عالمی بینکاری نظام سے علیحدہ کر دینا شامل ہیں۔

ایک امریکی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ اگر روس یوکرین پر حملہ کرتا ہے تو امریکہ پولینڈ اور بالٹک ریاستوں میں مزید فوجی بھیج سکتا ہے۔

دوسری جانب سے یورپی ممالک نے بھی یوکرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے چیف جوزف بوریل نے یوکرین کی روس کے ساتھ سرحد کا دورہ بھی کیا ہے۔

ادھر وائٹ ہاوس کا کہنا ہے کہ امریکہ روس کے ساتھ میزائل کے نظام سمیت فوجی مشقوں پر بات چیت کے لیے تیار ہے۔

 وائٹ ہاوس عہدیدار کے مطابق دونوں ممالک کے درمیان یہ بات چیت اتوار کو جنیوا میں ہی شروع ہو سکتی ہے۔

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا