اپنے آپ سے زبردستی محبت کرنا تھکا دینے والا کام ہے

جسمانی غیرجانبداری کا مطلب یہ ہے کہ آپ اپنے جسم کے بارے میں مثبت یا منفی سوچے بغیر، بس اپنا وجود برقرار رکھ سکیں، یعنی، اپنے دبلے پن یا موٹاپے کو کوئی بڑا مسئلہ بنائے بغیر بس سکون سے زندہ رہنا۔

جینیٹ کپلن 20 اکتوبر 2016 کو نیو یارک میں نو عمر لڑکیوں  سے باڈی پازیٹیویٹی کے بارے میں بات کر رہی ہیں (فائل تصویر: اے ایف پی)

نئے سال کا آغاز ہوتے ہی میرا سوشل میڈیا پلیٹ فارم ان اشتہاروں سے بھر چکا ہے جو کچھ کرنا میرا ہدف تھا۔

یوٹیوب سے انسٹاگرام تک، وزن گھٹانے کے اشتہار، ورزشی پروگرام، دوائیں اور مشورے میری سوشل میڈیا فیڈ پر موجود اصل پوسٹس کے ہر حصے پر چھا چکی ہیں۔

یہ سال کا وہ وقت ہے جس میں لوگ جسم پر سب سے زیادہ توجہ دیتے ہیں۔

میری اب تک کی سوشل میڈیا زندگی (تقریباً 11 سال) کے بعد یہ واضح ہے کہ جنوری غذائی صنعت کا سب سے زیادہ مقبول مہینہ ہے۔

پچھلے 30 دن کے دوران’ڈائٹنگ‘ کے لیے گوگل پر کی جانے والی تلاش میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔ آن لائن ورزش کے لیے لوگوں نے رجسٹریشن کروائی ہے اور کمپنیوں کو موقع مل گیا ہے کہ وہ اس خوش خوراکی کو ہتھیار بنا لیں جو ہم پورا دسمبر کرتے رہے ہیں۔

تو یہ بات بہت معقول ہے کہ کمپنیاں ان اشتہارات پر کچھ اضافی رقم خرچ کر لیں (جو ہماری وال پر نظر آتے ہیں)۔ لیکن اس کا نقصان بھی کم نہیں۔ ہر سال جنوری کے دوران میں اس ’جادوئی اثر رکھنے والی دوا‘ پینے کی خواہش کے خلاف مزاحمت کرتی ہوں جس کا اپنے اشتہار میں دعویٰ ہے کہ اسے پینے کے بعد پلک جھپکتے ہی میرا پانچ پاؤنڈ وزن کم ہو جائے گا۔ (نوٹ: میرے ساتھ ایسا ہو گا اور نہ آپ کے) لیکن بہرحال انسان کبھی بھٹک جانا بھی تو پسند کر سکتا ہے۔

کھانے کی بے ترتیب عادتوں،  پیٹ گھٹانے والی دواؤں کی لت اور اپنے جسم پر مکمل جنونی توجہ کے بعد اب بھی کبھی کبھار میں اپنی جھریوں اور لکیروں کو دیکھتی ہوں اور سوچتی ہوں کہ کیا واقعی چند پاؤنڈ خرچ کرنے کا مطلب ہے کہ میں ان میں سے کچھ  سے نجات پا بھی سکتی ہوں؟

غذائی صنعت کی بحالی کے پسندیدہ سیزن کی واپسی کے معاملے میں ستم ظریفی یہ ہے کہ ہر سال ان دنوں وزن میں ناقابل برداشت اضافہ محسوس ہوتا ہے۔

باڈی پازیٹویٹی کے معاملے میں میگن جین گریبی، گریس ایف وکٹری اور نیومی نکولس جیسے انفلوئنسرز کا شکریہ کیوں کہ وہ لوگ ہر سال سوپر ہیروز کی طرح میری مدد کو آتے ہیں۔ اس سال ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ڈائٹنگ کلچر کی خرابیاں کم کرنے کے لیے پہلے سے زیادہ کوشش کر رہے ہیں۔

2022 میں انہوں نے کرسمس کے فوراً بعد اپنی مہم شروع کر دی۔ تصاویر پوسٹ کیں اور بتایا کہ’حقیقت پسند‘جسم دراصل کس طرح کے نظر آتے ہیں۔ انہوں نے سکھایا کہ ہم ایسے اشتہار بلاک اور رپورٹ کریں جو ہماری خودداری کو کم کرتے ہیں اور ہمیں اپنے جسم سے نفرت کرنے کی ترغیب دیتے ہیں۔ یہ ڈائٹنگ کے خلاف جنگ میں ایک دلیرانہ کوشش ہے۔

ان لوگوں کی محنت کو ہمیشہ سراہا جانا چاہیے اور خاص طور پر اس مشکل مہینے میں کہ جب 61 فیصد لوگ اپنے جسم کے بارے میں منفی خیالات رکھتے ہوں اور جب کہ برطانیہ کی خوراک سے متعلق صنعت کے حجم میں سالانہ دو ارب پاؤنڈ کا اضافہ ہو رہا ہے۔

لیکن اس بار، ایک نئے اور غیر متوقع چیلنج نے مجھے آن گھیرا ہے۔ اپنے آپ سے پیار کرنا (جیسا کہ کچھ موٹاپا پسند انفلوئنسرز کہتے ہیں) اتنا ہی عجیب محسوس لگتا ہے جتنا ’خود کو ڈائٹنگ اور ورزش سے ٹھیک رکھنے‘ کا خیال! ڈائٹنگ ناکام ہونے کے بعد بالخصوص ایسا کرنا ناممکن ہوتا ہے (شاید وہ ڈائٹ پلان بنے ہی ناکام ہونے کے لیے ہوں)، تو بھاری بھرکم خواتین بھی براہ راست عدم تحفظ سے جڑی ہوتی ہیں۔

میں سمجھ سکتی ہوں کہ موٹاپے کو فخریہ اپنانے کا درس دینے والے انفلوئنسرکیوں چاہتے ہیں کہ موٹی خواتین اس مہم میں شامل ہوں اور ڈائٹنگ کلچر کے مقابلے میں اپنا آپ اس دنیا کے سامنے کھل کر پیش کریں، اور اسے پسند کریں، جس دنیا نے طویل عرصے تک دبلے پن اور پتلے جسموں کی پرستش کی ہے۔

ایک ایسی صنعت کے سامنے، اپنے جسم اور اپنی خوراک سے لطف اندوز ہونا جو ہرگز نہیں چاہتی کہ ہم ایسا کریں، یقیناً ایک بہترین قسم انصاف ہو گا، لیکن، اپنے (ایسے) آپ سے پیار کرنا ایک تھکا دینے والا عمل ہے۔ میں اپنے جسم سے محبت کرنے اور اسے قبول کرنا سیکھنے جیسے تھکا دینے والے کام کی بجائے اس کے بارے میں دوبارہ کبھی نہ سوچنے کو ترجیح دوں گی۔

ان کمپنیوں کے دعووں اور ان کی مستقل بقا کے باوجود دبلا کرنے کا دعویٰ کرنے والے تمام غذائی پروگراموں کی ناکامی کی شرح 98 فیصد ہے (ایک اور وجہ کہ ان کو بے نقاب کرنا کیوں اتنا ضروری ہے)۔

لیکن مجھے لگتا ہے کہ اپنے جسم سے محبت کرنے میں میری ناکامی کی شرح اس سے بھی کہیں زیادہ ہے۔ میں نے اپنے جسم سے کو اپنانے اور اسے پسند کرنے کے لیے اتنی ہی کوششیں کیں جتنے میں نے فضول قسم کے ڈائٹ پلان استعمال کیے۔

لگتا ہے کہ ان سب کا انجام ایک جیسا ہے: آنسو، مایوسی، اور یہ سوچنا کہ میں ایسا کیوں نہیں کر سکتی، جب کہ ہر دوسرا یہ سب کچھ کرنے میں کامیاب رہا ہے۔ یہ صرف قابل عمل محسوس نہیں ہوتا ہے۔

’دبلا پن صحت کی علامت ہے‘ میں اس مفروضے کو ختم کرنے کے لیے، موٹے لوگوں سے نفرت کے خلاف اور بھاری جسامت والوں سے امتیازی سلوک کے خاتمے کے لیے ہمیشہ لڑتی رہوں گی، لیکن مجھے اپنے جسم پر اس سب کا اطلاق کرنے میں رکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اس کے بجائے، میں جو چاہوں گی وہ کھانا پسند کروں گی اور جو جسم میرے پاس ہے اسے کسی بھی طرح کی سیاست (باڈی پازیٹویٹی)کے بجائے بس گزارہ کرنا پسند کروں گی۔ اچھا یا برا میں نہیں چاہتی کہ یہ کوئی شدت پسند قسم کی خود پسندی کا عمل ہو اور نہ ہی میں چاہتی ہوں کہ میرے اس فیصلے کو ’فیٹ فوبیا‘کے رواج سے شرمندہ کیا جائے۔

جسمانی غیر جانبداری کا تصور 2000 کی دہائی میں متعارف کرایا گیا تھا۔ اس اصطلاح کا سہرا  مختلف لوگوں کے سر جاتا ہے لیکن زیادہ تر اسے این پواریئر سے جوڑا جاتا ہے۔

جسمانی غیرجانبداری یہ تصور ہے کہ آپ اپنے جسم کے بارے میں کسی نہ کسی طرح، مثبت یا منفی سوچے بغیر، بس اپنا وجود برقرار رکھ رہ سکتے ہیں۔ میرے خیال میں اصل بات یہ ہے کہ اپنے جسم کے دبلے پن یا موٹاپے کو کوئی بڑا مسئلہ بنائے بغیر بس اپنا وجود برقرار رکھنا۔ اور یہ بالکل وہی اصول ہے جس کی مجھے ضرورت ہے۔

اس مہینے میں اپنے جسم کے معاملے میں غیر جانبداری – یا حتیٰ کہ لاتعلقی والے اصول پر عمل کرنے کی کوشش کروں گی۔

میں جان بوجھ کر یہ کوشش کر رہی ہوں کہ میرے جسم کے بارے میں کسی بھی بات کو اپنی روزمرہ روٹین سے نکال دوں اور اگر کوئی اس طرف اشارہ بھی کرے تو اس کی بات کسی دوسری طرف گھما دوں۔ میں صرف اپنے جسم کی ضروریات کو دیکھوں گی بجائے اسے تنقیدی نظر سے پرکھنے کے، اور کوئی بھی منفی خیال اگر میرے جسم کے بارے میں آیا تو اس کی بنیاد پہ اپنے آپ کو کٹہرے میں کھڑا نہیں کروں گی۔ بلکہ، اگر کوئی سوچ آئی بھی تو اس کھلے دماغ سے آنے کی اجازت دوں گی، دہراؤں گی اور پھر وہ سب کچھ بھول جاؤں گی۔

جیسا کہ اکثر لوگ گوشت یا الکوحل ترک کر دیتے ہیں یا سبزی خور ہو جانے کی کوشش کرتے ہیں، میں اپنے جسم کے بارے میں سوچے بغیر پورا ایک مہینہ بالکل نارمل رہوں گی، اور اگر میں ایک دن بھی ایسا کر سکی تو یہ پچھلے سال کے مقابلے میں میرے لیے ایک بڑا اور کامیاب دن ہو گا۔

© The Independent

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر