یوکرین پر حملے کے علاوہ روس کے پاس کیا امکانات موجود ہیں؟

معاشی جنگ، سائبر حملوں، چینی تعاون، لاطینی امریکہ میں موجود روسی فوج یا کسی سفارتی حل کے تمام ممکنات سمیت ایک روسی قدم توانائی کے وسائل کی فراہمی میں کمی کا بھی ہو سکتا ہے جو سردیوں میں یورپ کے لیے تکلیف دہ ہو گا، جہاں قیمتیں پہلے سے زیادہ ہیں۔

یوکرین کی سرحدوں پر ایک لاکھ سے زیادہ فوج اکٹھی کرنے کے بعد بظاہر ایسا دکھائی دیتا ہے کہ روس کے صدر ولادی میرپوتن  حملے کی تیاری کر رہے ہیں۔

امریکہ کا ماننا ہے کہ یقینی طور پر ایسا ہی ہے۔ صدر جوبائیڈن یوکرین کے صدر ولودی میر زیلنسکی کو خبردار کر چکے ہیں کہ فروری میں یوکرین پر حملہ کیا جا سکتا ہےلیکن دوسری طرف روس حملے کی تیاری کی تردید کر رہا ہے اور پوتن کے ارادے پردے میں ہیں۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کے تجزیہ کاروں بین فوکس اور ولادی میر آئزیکنکوف کے مطابق روس جس سے نیٹو یہ وعدہ چاہتا ہے کہ وہ اپنا دائرہ یوکرین تک نہیں بڑھائے گا، اس کے پاس یوکرین پر مکمل حملے کے علاوہ بھی راستے موجود ہیں جنہیں وہ اختیار کر سکتا ہے۔

روس کے پاس امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو نشانہ بنانے کے دوسرے طریقے بھی ہیں۔ ان تمام طریقوں میں روس اور دنیا کے لیے مختلف درجے کے خطرات موجود ہیں۔

مکمل حملے کے علاوہ کیا ہو سکتا ہے؟

سال 2014 میں روس نے جزیرہ نما کریمیا کو یوکرین سے چھین لیا تھا۔ اس سال روس نے مشرقی علاقے ڈونبس میں باغیوں کو مسلح کرنا بھی شروع کر دیا۔ اس طرح ایسی خوفناک لڑائی شروع کی گئی جس میں 14 ہزار سے زیادہ لوگ مارے گئے۔ روس کے  معاملے میں بہت سے مبصرین کا خیال ہے کہ یوکرین کی سرحد پر روسی فوج اور بحریہ کا حالیہ اجتماع یوکرین کو کمزور کرنے کی بڑی کوشش کا اگلا باب ہے۔

روس شاید اس موقعے سے فائدہ اٹھانا چاہتا ہے کہ یورپ میں امریکہ اور اس کے اتحادی کووڈ 19 اور دیگر مسائل میں الجھے ہوئے ہیں۔

ان حالات کے پیش نظر روس کی طرف سے ممکنہ اقدامات میں اس کے حمایت یافتہ باغیوں کو اضافی مدد فراہم کرنا یا محدود حملہ شامل ہے جو یوکرینی صدر زیلنسکی کو غیر مستحکم کرنے اور کریملن کے حامی رہنما کو اقتدار میں لانے کے لیے کافی ہوگا۔

یورپ میں امریکی فوجوں کے سابق کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل بین ہوجز کا کہنا ہے کہ یوکرین پر مکمل حملہ نہ کرنے کی صورت میں روس کو سرحد پر مزید فوج لانے سمیت امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے بطور سزا پابندیاں عائد کرنے کے اعلان کو آزمانے کا موقع مل جائے گا۔

معاشی جنگ

روس توانائی کے عالمی شعبے میں ایک بڑا ملک ہے۔ وہ امریکہ اور سعودی عرب کے بعد تیل پیدا کرنے والا تیسرا سب سے بڑا ملک ہے۔ یورپ میں استعمال ہونے والی قدرتی گیس کا تقریباً 40 فیصد روس فراہم کرتا  ہے۔ خاص طور پرروس ترقی پذیر ممالک کو گندم کا بڑا برآمد کنندہ بھی ہے۔ توانائی کی فراہمی میں کمی کا کوئی بھی اقدام سردیوں میں یورپ کے لیے تکلیف دہ ہو سکتا ہے جہاں گیس اور تیل کی قیمتیں پہلے سے زیادہ ہیں۔ اسی طرح خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتیں دنیا بھر میں ایک مسئلہ ہے۔

اٹلانٹک کونسل یورشیا سنٹر میں سینیئر فیلو اور امریکی محکمہ خارجہ کے سابق عہدے دار ایڈورد فشمین کے مطابق پوتن کے پاس کچھ معاشی طاقت بھی ہے لیکن ایسا کوئی اشارہ نہیں ملا کہ وہ اسے استعمال کریں گے جب کہ ایسا کرنے سے مستقبل میں روس کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یورپ کو گیس کی فراہمی روکنے کا کوئی بھی قدم یورپی ملکوں کو مستقبل کے توانائی کے متبادل تلاش کرنے پر مجبور کر دے گا۔

سائبر حملے

اس میں کوئی شک نہیں کہ روس یوکرین سمیت پوری دنیا میں بڑے سائبر حملے کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ وہ کسی بھی کارروائی کے حصے کے طور پر اپنے ہمسایہ ملک پر یقیناً دوبارہ سائبر حملہ کرے گا۔ امریکی ہوم لینڈ سکیورٹی نے 23 جنوری کو قانون نافذ کرنے والے اداروں کو خبردار کیا تھا کہ اگر روس نے یہ سمجھا کہ یوکرین پر حملے کی صورت میں اس کے خلاف جوابی کارروائی اس کی’طویل المدت سلامتی‘کے لیے خطرہ ہے تو روس امریکہ پر سائبر حملہ شروع کرنے پر غور کرے گا۔ ان حملوں میں اہم بنیادی ڈھانچے کے خلاف ممکنہ کارروائیاں بھی شامل ہیں۔

روس پر مغرب کو شبہ ہے کہ اس نے 2015 میں یوکرین میں بجلی کی فراہمی کے نظام پر سائبر حملہ کیا تھا جب کہ اس ماہ ہیکرز نے یوکرین کی سرکاری ویب سائٹس بند کر دی تھیں۔ ہوجز نے خبردار کیا ہے کہ’روس کے زمینی یا فضائی حملے جتنے بھی بڑے پیمانے پر ہوں، وہ جو کچھ بھی کرے، سائبر حملے اس کا بڑا حصہ ہوں گے۔‘

چین کا کردار

یوکرین کے بحران میں چین کا براہ راست کوئی کردار نہیں ہے لیکن اس کا ایک اہم پہلو ضرور ہے۔ مبصرین نے خبردار کیا ہے کہ ماسکو، چین کے ساتھ فوجی تعلقات کو مضبوط بنا کر واشنگٹن کی طرف سے اپنے سکیورٹی مطالبات کو مسترد کیے کا جواب دے سکتا ہے۔

روس اور چین کئی مشترکہ جنگی مشقیں کرچکے ہیں جن میں بحری مشقیں اور بحیرہ جاپان اور مشرقی بحیرہ چین پر طویل پرواز کرنے والے بمبار طیاروں کا گشت شامل ہے۔

امریکی حکام کا کہنا ہے کہ چین کے صدر شی جن پنگ کی طرف سے بیجنگ میں سرمائی اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں صدارت کا موقع اہم ہو گا، اس لیے وہ نہیں سمجھتے کہ روس یوکرین پر حملہ کرے گا۔ امریکی حکام کے مطابق: ’جنگ کی صورت میں اولمپکس میں رکاوٹ پیدا ہونے پر چینی خوش نہیں ہوں گے۔‘واضح رہے کہ پوتن بیجنگ اولمپکس کی افتتاحی تقریب میں شرکت کا ارادہ بھی رکھتے ہیں۔ امریکہ اور یورپ چین پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہوئے کھیلوں میں حصہ نہیں لے رہے۔

لاطینی امریکہ میں روسی فوج کی تعیناتی

سینیئر روسی حکام خبردار کر چکے ہیں کہ ماسکو، کیوبا اور وینزویلا میں فوج یا فوجی اثاثے تعینات کر سکتا ہے۔ اگرچہ اس عمل کے امکانات کم ہیں حالانکہ روس کے ان دونوں ممالک اور نکاراگوا کے ساتھ قریبی تعلقات ہیں۔

 قومی سلامتی کے امریکی مشیر جیک سلیون نے اس خیال کو مسترد کر دیا ہے اور خطے اور دنیا بھر کے ماہرین اسے ایک ایسی حکمت عملی کے طور پر دیکھتے ہیں جو ممکنہ طور پر زیادہ کچھ حاصل نہیں کر سکے گی، سوائے اس کے کہ درکار روسی افواج کو کہیں اور منتقل کیا جائے، اور اس طرح ہونے کا امکان نہیں ہے۔

زیادہ امکانی منظر نامہ یہ ہے کہ روس لاطینی امریکہ اور ریاست ہائے متحدہ امریکہ سمیت دیگر جگہوں پر تقسیم کو تیز کرنے کے لیے پہلے سے ہی وسیع پروپیگنڈے اور غلط معلومات کی کوششوں کو تیز کر رہا ہے۔

علاقائی اور دنیا کے دوسرے حصوں کے ماہرین کی رائے میں شائد اس حکمت عملی کا کا زیادہ فائدہ نہ ہو سوائے اس کے وہ روسی فوج یہاں منتقل کر دی جائے جس کی کہیں اور ضرورت ہے۔ اس لیے لاطینی امریکہ میں روسی فوج کی تعیناتی کا امکان نہیں ہے۔

سفارتی حل

بحران کا یہ نتیجہ مسترد نہیں کیا گیا کہ روس یوکرین پر حملہ کر دے گا۔ اگرچہ بائیڈن انتظامیہ کہہ چکی ہے کہ وہ روس کے سکیورٹی کے مطالبات تسلیم نہیں کرے گی لیکن ایسا لگتا ہے کہ سفارت کاری کے لیے اب بھی کچھ گنجائش موجود ہے۔ روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف نے جمعرات کو کہا کہ امریکی ردعمل سے’دوسرے سوالات پر سنجیدگی کے ساتھ بات چیت شروع کی امید پیدا ہوئی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ادھر فرانس، جرمنی، یوکرین اور روس نے 2015 کے معاہدے کی بحالی کے لیے دو ہفتے میں مذاکرات شروع کرنے پر اتفاق کیا ہے تا کہ مشرقی یوکرین میں کشیدگی کم کی جا سکے۔ بعض مبصرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ ایسا ہوا تو روس کے خلاف متحدہ محاذ دکھانے کی امریکہ اور نیٹو کی کوششیں مشکلات کا شکار ہو جائیں گی۔

روسی صحافی یولیا لیتی نینا نے امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں شائع ہونے والے اپنے مضمون میں کہا ہے کہ کشیدگی میں کمی دنیا کے لیے تو اچھی ہو سکتی ہے لیکن پوتن کو مہنگی پڑے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ روسی صدر نے فوج کو دھمکانے کے یوکرین کی سرحد پر جمع کیا ہو جس سے انہیں امید ہو کہ وہ امریکہ اور یورپ کو یوکرین کے قریب ہونے کے ارادے سے باز رکھ سکیں گے۔ روسی صحافی کے مطابق: ’امریکہ کو جال میں پھنسانے کی بجائے پوتن خود پھنس گئے ہیں۔ لڑائی یا ذلت آمیز پسپائی کے درمیان پھنسے ہوئے وہ کسی بھی کارروائی کے لیے اپنے لیے گنجائش کو اس انداز میں کم ہوتا دیکھ رہے جس کا انہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘

زیادہ پڑھی جانے والی ایشیا