روس کو یوکرین اور نیٹو پر کوئی رعایت نہیں دی: امریکہ

روسی مطالبات کے جواب میں امریکہ نے ایک تحریر کردہ ردعمل ماسکو میں موجود اپنے سفیر کے ذریعے روس کے متعلقہ محکمے تک پہنچایا ہے۔

26 جنوری کو امریکی وزیر خارجہ اینٹنی  بلنکن  واشنگٹن میں سٹیٹ ڈپارٹمنٹ میں پریس بریفنگ دیتے ہوئے۔ ان کا کہنا ہے کہ روس کو یوکرین کے حوالے سے مطالبات پر کوئی رعایت نہیں دی گئی ہے (اے ایف پی)

امریکہ نے کہا ہے کہ اس نے مشرقی یورپ میں نیٹو کے حوالے سے روسی مطالبات پر غور کے لیے ایک سفارتی راستہ طے کر لیا ہے۔

خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق روسی مطالبات کے جواب میں امریکہ نے ایک تحریر کردہ ردعمل ماسکو میں موجود اپنے سفیر کے ذریعے روس کے متعلقہ محکمے تک پہنچایا ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن کے مطابق اس ردعمل میں امریکہ نے نیٹو کی ’اوپن ڈور‘ پالیسی کا اعادہ کیا ہے اور کریملن کی تشویش کا ’عملی اور اصولی جائزہ‘ لیا گیا ہے۔

اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ ’امریکہ نے روس کو یوکرین اور نیٹو کے حوالے سے کیے جانے والے مطالبات پر کوئی رعایت نہیں دی ہے۔‘

یاد رہے کہ روس نے مطالبہ کیا ہے کہ نیٹو مشرقی یورپ سے اپنے فوجی اور ہتھیار ہٹا لے جبکہ یوکرین کی نیٹو میں شمولیت پر بھی پابندی عائد کی جائے۔

امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادی روس کے ان مطالبات کو مسترد کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ روس کے ساتھ اعتماد کی بحالی سمیت ہتھیاروں کے کنٹرول جیسے معاملات پر بات کرنے کے لیے تیار ہیں۔

امریکی وزیر خارجہ بلنکن کا کہنا تھا: ’اس بارے میں لکھ کر جواب دینا ایک اچھا طریقہ ہے تاکہ بات کو بہت واضح انداز میں بیان کیا جا سکے۔ روسی ہمارا موقف اور ہماری سوچ بہت واضح انداز میں سمجھتے ہیں۔ اس وقت یہ دستاویز ان کے پاس اور بال ان کے کورٹ میں ہے۔‘

جب روس کے نائب وزیر خارجہ الیگزینڈر گرشکو سے پوچھا گیا کہ روس کو نیٹو کی اس دستاویز کے جواب کے لیے کتنا وقت درکار ہو گا تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہم اس کو پڑھیں گے۔ اس کا مطالعہ کریں گے۔ ہمارے ساتھیوں نے ہماری تحریر کو تقریباً ڈیڑھ ماہ تک پڑھا تھا۔‘

یاد رہے کہ روس مغربی ممالک کے ساتھ سکیورٹی مذاکرات میں مصروف ہے جبکہ یوکرین کی سرحد پر اس کی نئی جنگی مشقیں بھی جاری ہیں۔

جنگ بندی

دوسری جانب ماسکو اور کیئف نے پیرس میں آٹھ گھنٹوں پر محیط مذاکرات میں مشرقی یوکرین میں روس اور یوکرین کے درمیان ماضی میں طے پانے والی جنگ بندی پر قائم رہنے پر اتفاق کرلیا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق فرانسیسی صدر ایمانوئل میکروں کے ایک مشیر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ پیرس میں ہونے والے ان مذاکرات کا مقصد سال 2014 سے مشرقی یوکرین میں جاری علیحدگی پسندوں کی جدوجہد کے مسئلے کو حل کرنا ہے اور ان مذاکرات کا مقصد یوکرین پر روس کا ممکنہ حملہ نہیں ہے۔

یاد رہے کہ یوکرین کی سرحد پر روس کے ہزاروں سپاہی موجود ہیں جس کے بعد نیٹو نواز یوکرین پر روسی حملے کے امکانات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

سال 2019 کے بعد یہ پہلا موقع ہے جب روس اور یوکرین نے کسی مشترکہ بیان پر دستخط کرنے پر رضامندی ظاہر کی ہے۔ اس مشترکہ بیان میں روس اور یوکرین کے علاوہ فرانس اور جرمنی بھی شریک تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نورمینڈی گروپ کے نام سے جانے جانے والے اس چار ملکی گروپ میں شامل یہ ممالک سال 2014 سے مشرقی یوکرین میں امن معاہدے کی کوشش کر رہے ہیں۔

روس کا یوکرین پر حملہ ’غیر دانشمندانہ‘ ہو گا

ادھر ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے روس کے یوکرین پر ممکنہ حملے کو ’غیر دانشمندانہ‘ قرار دیا ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ایسا ہونے کی صورت میں ترکی نیٹو رکن کے طور پر وہی کرے گا جو ضروری ہو گا۔

روئٹرز کے مطابق این ٹی وی کو دیے جانے والے انٹرویو میں ترک صدر کا کہنا تھا کہ انہوں نے روسی صدر ولادی میر پوتن کو ترکی کے دورے کی دعوت دی ہے تاکہ طرفین کی سفارت کاری کے لیے میزبانی کی جا سکے اور امن کی راہ پر چلا جا سکے۔ ان کا کہنا تھا کہ انہیں ماسکو کی جانب سے اس حوالے سے جواب کی توقع ہے۔

ان کا کہنا تھا: ’مجھے امید ہے کہ روس یوکرین پر حملہ یا قبضہ نہیں کرے گا۔ روس کا ایسا قدم خطے اور روس کے لیے دانش مندانہ نہیں ہو گا۔ ہمیں ایسے مذاکرات کی ضرورت ہے جس میں روس کی مناسب تشویش کو سنا اور دور کیا جا سکے۔‘

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق روس اور یوکرین کی میں موجود کشیدگی پر یوکرین کے وزیر خارجہ دمترو کلیبا کا کہنا ہے کہ ’گو کہ روس فوجیوں کی یوکرین کی سرحد پر موجودگی خطرے کو ظاہر کرتی ہے لیکن ان کی تعداد ایک بڑے حملے کے لیے ناکافی ہے۔‘

صحافیوں سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ’ایک بڑے حملے کے لیے ابھی بھی کئی عسکری عناصر اور نظام یہاں موجود نہیں ہیں۔‘

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا