یوکرین معاملہ: امریکہ کی روس پر اقتصادی پابندیوں پر غور کی تردید

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن سے اتوار کو انٹرویو کے دوران سوال پوچھا گیا ’کیا یہ حقیقت ہے کہ امریکہ ایران کے جوہری مذاکرات میں روسی حمایت کی ضرورت کے تحت یوکرین کے معاملے میں اپنے ہاتھ بندھے محسوس کر رہا ہے؟‘ تو جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہرگزنہیں۔‘

امریکی وزیر خارجہ  اینٹنی بلنکن 21 جنوری کو جنیوا میں روسی وزیر خارجہ کے ساتھ ملاقات کے بعد ایک پریس کانفرنس کر رہے ہیں۔ واشنگٹن اور ماسکو کے اعلیٰ سفارت کاروں نے یوکرین پر کشیدگی کو کم کرنے کے لیے کام جاری رکھنے کے لیے اعلیٰ سطحی بات چیت پر اتفاق کیا(تصویر: اے ایف پی)

امریکی وزیر خارجہ ایٹنی بلنکن سے اتوار کو سی بی ایس نیوز چینل سے انٹرویو کے دوران سوال پوچھا گیا ’کیا یہ حقیقت ہے کہ امریکہ ایران کے جوہری مذاکرات میں روسی حمایت کی ضرورت کے تحت یوکرین کے معاملے میں اپنے ہاتھ بندھے محسوس کر رہا ہے؟‘ تو جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ’ہرگز نہیں۔‘

قبل ازیں امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن نے روس پر اقتصادی پابندیاں عائد کرنے کے خیال کی تردید کرتے ہوئے کہا تھا کہ ایسا کرنے سے یوکرین کے خلاف ممکنہ روسی جارحیت کو روکنے کے لیے مغرب کی صلاحیت کم ہو جائے گی۔ انہوں نے ان خیالات کا اظہار اتوار کو سی این این سے بات کرتے ہوئے کیا۔

یوکرین بارڈر پر روسی افواج کی بڑھتی تعداد نے مغربی خدشات کو جنم دیا ہے کہ وہ آنے والے دنوں میں حملہ کر سکتا ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اگر روس ایسی دراندازی کرتا ہے تو مغرب متفق ہے کہ اس پر پابندیاں لگائی جائیں گی جن کے معاشی اثرات دور رس ہوں گے۔ روس کا موقف ہے کہ اس کا حملہ کرنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔

اتوار کو ہی اینٹنی بلنکن نے یہ بیان بھی دیا کہ ’کوئی شک نہیں‘ کہ جرمنی یوکرین کے بحران پر نیٹو کے ساتھ متحدہ محاذ میں شامل ہے۔ ان کا یہ بیان اس وقت سامنے آیا ہے جب جرمنی کو یوکرین میں ممکنہ روسی جارحیت کے بارے  میں اپنا موقف سخت کرنے کے لیے دباؤ کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

’جرمن ہمارے تحفظات کے لیے پرعزم ہیں اور وہ (وقت آنے پر)مؤثر طریقے سے اور متحد انداز میں جواب دیں گے۔‘ اینٹنی بلنکن نے این بی سی ٹاک شو ’میٹ دی پریس‘ کے دوران یہ بات کہی۔

گذشتہ ہفتے وائٹ ہاؤس کا کہنا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس حکام اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ روس یوکرین پر حملے کے بہانے تیار کر رہا ہے اور وہ مشرقی یوکرین میں ’ایک فالس فلیگ آپریشن‘ کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تیار ہے۔

وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا ’انٹیلی جنس رپورٹس میں سامنے آیا ہے کہ روس سوشل میڈیا کی ایک مہم کے ذریعے یوکرین کو جارح دکھانا چاہتا ہے جو روسی حمایت یافتہ فورسز کے خلاف مشرقی یوکرین میں فوری حملے کی تیاری کر رہا ہے۔‘

ان معلومات کے مطابق روس کا یوکرین پر حملہ جنوری کے وسط سے فروری کے وسط تک کی مدت میں متوقع تھا۔

روس اور مغربی ممالک کے درمیان یوکرین کے معاملے پر شدید کشیدگی پائی جاتی ہے جب کہ روس مغربی ممالک کے ساتھ اپنی ’نئی سکیورٹی حکمت عملی‘ پر بات کرنا چاہتا ہے لیکن اسے اس وقت یوکرین کی سرحد سے اپنے فوجی واپس بلانے پر اسے بھرپور دباؤ کا سامنا ہے۔

روس نے گذشتہ سال سے ہی یوکرین کی سرحد کے قریب ہزاروں فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ روس کا مطالبہ ہے کہ نیٹو اس بات کی ضمانت دے کہ وہ سابقہ سوویت یونین کی ریاستوں میں مزید اڈے قائم اور مشرق کی سمت مزید توسیع نہیں کرے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن روسی مطالبات کو ’دکھاوا‘ قرار دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ روس کے ساتھ جینیوا میں ہونے والے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ ’روس نے یوکرین کی کنپٹی پر بندوق تان رکھی ہے۔‘

گذشتہ سال جون کے دوران جنیوا میں امریکی صدر جوبائیڈن اور روسی صدر ولادی میر پوتن کی ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں صدور نے ’استحکام پر مبنی مسلسل مذاکرات‘ پر اتفاق کیا تھا۔

اس ملاقات کے بعد دونوں صدور کے درمیان دو بار فون پر بھی بات ہو چکی ہے جس میں امریکی صدر نے روسی صدر کو یوکرین پر حملہ کرنے سے باز نہ رہنے کی صورت میں سنگین نتائج کی تنبیہ کی ہے۔

امریکہ نے روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کی صورت میں سخت اقدامات کی دھمکی دی ہے جن میں روسی صدر کے قریبی حلقے میں موجود افراد پر پابندیاں، جرمنی کو جانے والے روسی نورڈ سٹریم ٹو کی معطلی اور مزید سخت قدم کے طور پر روس کو عالمی بینکاری نظام سے علیحدہ کر دینا شامل ہیں۔

دوسری جانب سے یورپی ممالک نے بھی یوکرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے چیف جوزف بوریل نے یوکرین کی روس کے ساتھ سرحد کا دورہ بھی کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ