روس یوکرین پر حملے کے بہانے تیار کر رہا ہے: امریکہ

روس کا مطالبہ ہے کہ نیٹو اس بات کی ضمانت دے کہ وہ سابقہ سوویت یونین کی ریاستوں میں مزید اڈے قائم اور مشرق کی سمت مزید توسیع نہیں کرے گا۔

وائٹ ہاؤس کا کہنا ہے کہ امریکی انٹیلی جنس حکام اس نتیجے پر پہنچ چکے ہیں کہ روس یوکرین پر حملے کے بہانے تیار کر رہا ہے اور وہ مشرقی یوکرین میں ’ایک فالس فلیگ آپریشن‘ کے ذریعے اس مقصد کو حاصل کرنے کے لیے تیار ہے۔

خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق جمعے کو وائٹ ہاؤس کی ترجمان جین ساکی کا کہنا تھا کہ ’انٹیلی جنس رپورٹس میں سامنے آیا ہے کہ روس سوشل میڈیا کی ایک مہم کے ذریعے یوکرین کو جارح دکھانا چاہتا ہے جو روسی حمایت یافتہ فورسز کے خلاف مشرقی یوکرین میں فوری حملے کی تیاری کر رہا ہے۔‘

انہوں نے الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ روس نے شہری جنگ میں مہارت رکھنے والے ایجنٹس کو پہلے ہی اس علاقے کی جانب روانہ کر دیا ہے جو روس کی پراکسی فورسز کے خلاف دھماکہ خیز مواد استعمال کرتے ہوئے کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ ان کارروائیوں کا الزام یوکرین پر عائد کرتے ہوئے روسی صدر ولادی میر پوتن یوکرین پر حملے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

جین ساکی کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمیں اس بارے میں تشویش ہے کہ اگر سفارت کاری اپنے مقاصد حاصل کرنے میں ناکام ہوتی ہے تو روسی حکومت یوکرین پر حملے کی تیاری کر رہا ہے جو انسانی حقوق کی بڑے پیمانے پر خلاف ورزیوں اور جنگی جرائم پر متنج ہو سکتی ہے۔‘

ادھر پینٹاگون کے ترجمان جان کربی نے ان انٹیلی جنس معلومات کو ’انتہائی معتبر‘ قرار دیا ہے۔ ایک امریکی عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ یہ نتائج لوگوں کے درمیان ہونے والے روابط اور ان کی نقل و حرکت سے اخذ کیے گئے ہیں۔

امریکی انٹیلی جنس کی ان معلومات کو منظر عام پر لانے سے قبل امریکی اتحادیوں کے ساتھ بھی شیئر کیا گیا ہے۔ ان معلومات کے مطابق روس کا یوکرین پر حملہ جنوری کے وسط سے فروری کے وسط تک کیا جا سکتا ہے۔

جمعرات کو امریکی قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ امریکی انٹیلی جنس حکام نے اس نتیجے پر نہیں پہنچے کے روس نے یوکرین پر حملے کا حتمی فیصلہ کر لیا ہے لیکن روس صدر پوتن کے ایسا فیصلہ کرنے کی صورت میں کوئی بھی بہانہ استعمال کر سکتا ہے۔

خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق روس اور مغربی ممالک کے درمیان یوکرین کے معاملے پر شدید کشیدگی پائی جاتی ہے جبکہ روس مغربی ممالک کے ساتھ ایک نئی سکیورٹی حکمت عملی پر بات کرنا چاہتا ہے لیکن اسے اس وقت یوکرین کی سرحد سے اپنے فوجی واپس بلانے پر بھرپور دباؤ کا سامنا ہے۔

روس نے گذشتہ سال سے ہی یوکرین کی سرحد کے قریب ہزاروں فوجی تعینات کر رکھے ہیں۔ روس کا مطالبہ ہے کہ نیٹو اس بات کی ضمانت دے کہ وہ سابقہ سوویت یونین کی ریاستوں میں مزید اڈے قائم اور مشرق کی سمت مزید توسیع نہیں کرے گا۔

گذشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ اینٹنی بلنکن روسی مطالبات کو ’دکھاوا‘ قرار دیتے ہوئے کہہ چکے ہیں کہ روس کے ساتھ جینیوا میں ہونے والے مذاکرات کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا کیونکہ ’روس نے یوکرین کی کنپٹی پر بندوق تان رکھی ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

اینٹنی بلنکن کا کہنا تھا کہ ’ہم روسی جارحیت کا بھرپور جواب دینے کے لیے تیار ہیں لیکن ایک سفارتی حل اب بھی ممکن ہے اگر روس اسے چنتا ہے۔‘

یاد رہے گذشتہ سال جون میں جنیوا میں ہی امریکی صدر جوبائیڈن اور روسی صدر ولادی میر پوتن کی ملاقات ہوئی تھی جس میں دونوں صدور نے ’استحکام پر مبنی مسلسل مذاکرات‘ پر اتفاق کیا تھا۔

اس ملاقات کے بعد دونوں صدور کے درمیان دو بار فون پر بھی بات ہو چکی ہے جس میں امریکی صدر نے روسی صدر کو یوکرین پر حملہ کرنے سے باز نہ رہنے کی صورت میں سنگین نتائج کی تنبیہ کی ہے۔

امریکہ نے روس کے یوکرین پر حملہ کرنے کی صورت میں سخت اقدامات کی دھمکی دی ہے جن میں روسی صدر کے قریبی حلقے میں موجود افراد پر پابندیاں، جرمنی کو جانے والے روسی نورڈ سٹریم ٹو کی معطلی اور مزید سخت قدم کے طور پر روس کو عالمی بینکاری نظام سے علیحدہ کر دینا شامل ہیں۔

دوسری جانب سے یورپی ممالک نے بھی یوکرین کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے اور یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے چیف جوزف بوریل نے گذشتہ ہفتے یوکرین کی روس کے ساتھ سرحد کا دورہ بھی کیا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی دنیا