افغانستان میں مقیم حاملہ صحافی کی وطن واپسی کی راہ ہموار

نیوزی لینڈ کے نائب وزیر اعظم گرانٹ رابرٹسن نے کہا ہے کہ شارلٹ بیلس کو قرنطینہ کے لیے مخصوص ہوٹل میں ایک کمرے کے لیے واؤچر کی پیشکش کی گئی ہے۔

35 سالہ شارلٹ بیلس نے قطر میں قائم نیوز نیٹ ورک الجزیرہ کی افغانستان کی نامہ نگار کے طور پر کام کیا تھا (شارلٹ بیلس انسٹاگرام اکاؤنٹ)

نیوزی لینڈ کی حاملہ صحافی، شارلٹ بیلس، جو کرونا وبا میں اپنے آبائی ملک کی سرحدی پالیسی کے باعث افغانستان میں پھنس گئی ہیں، نے منگل کو کہا کہ حکومت نے بالآخر ان کی وطن واپسی کی راہ ہموار کر دی ہے۔ 

خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق نائب وزیر اعظم گرانٹ رابرٹسن نے کہا ہے کہ شارلٹ بیلس کو قرنطینہ کے لیے مخصوص ہوٹل میں ایک کمرے کے لیے واؤچر کی پیشکش کی گئی ہے۔

اس سے قبل ان کے لیے وطن واپس لوٹنا ممکن نہیں تھا کیونکہ عہدیداروں نے ان سے کہا تھا کہ انہیں نیو زی لینڈ میں قرنطینہ کے لیے مخصوص ہوٹلوں میں جگہ حاصل کرنے کے لیے دوبارہ درخواست دینی پڑے گی، جس کی منظوری میں بہت وقت لگ سکتا تھا۔ 

نیوزی لینڈ میں کرونا وبا کی وجہ سے سخت داخلی پابندیاں نافذ ہیں اور وطن واپس لوٹنے والوں کو کئی دن قرنطینہ میں رہنے کی ضرورت ہے۔ ہزاروں شہری فوج کے زیر انتظام سرحدی قرنطینہ ہوٹلوں میں جگہ ملنے کے لیے بیرون ملک انتظار کر رہے ہیں، جن میں شارلٹ بھی شامل تھیں۔

شارلٹ بیلس نے ایک بیان میں کہا: ’میں مارچ کے آغاز میں اپنی بچی کو جنم دینے کے لیے اپنے آبائی ملک نیوزی لینڈ واپس جاؤں گی۔ ہم گھر واپس جانے اور ایسے خاص وقت پر خاندان اور دوستوں سے گھرے رہنے کے لیے بہت پرجوش ہیں۔‘

اے بی سی نیوز کے مطابق شارلٹ بیلس نے کہا کہ وہ اپنے ساتھی نیوزی لینڈ کے باشندوں کی حمایت پر ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہیں اور حکومت کو چیلنج کرتی رہیں گی کہ وہ اپنے سرحدی کنٹرول کا حل تلاش کرے۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ مایوس ہیں کہ یہ فیصلہ صرف ایک کے لیے تھا اور انہوں نے نیوزی لینڈ کی دیگر حاملہ خواتین کے لیے گھر واپس جانے کا راستہ نہیں کھولا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے اتوار کو کہا کہ ہر دن ایک جنگ تھی۔ ’میں نے لاٹری طرز کے نظام کے ذریعے نیوزی لینڈ میں داخل ہونے کی کوشش کی اور پھر ہنگامی واپسی کے لیے درخواست دی تھی، لیکن مسترد کردیا گیا تھا۔‘

نیوزی لینڈ کے قرنطینہ نظام کے سربراہ کرس بنی نے کہا کہ شارلٹ بیلس کو نئی پیشکش اس لیے کی گئی کیونکہ افغانستان انتہائی خطرناک ہے اور دہشت گردی کا خطرہ ہے۔

کرس بنی نے کہا کہ اس کیس کے متعلق بہت زیادہ خبروں کا فیصلے میں کوئی عمل دخل نہیں اور واحد غور طلب بات شارلٹ بیلس کی حفاظت ہے۔

اے ایف پی کے مطابق نائب وزیر اعظم گرانٹ رابرٹسن نے کہا کہ بیلس کو ان کے حالات کا جائزہ لینے کے بعد قرنطینہ میں جگہ دی گئی، نہ کہ ان کے کیس کی شدید تشہیر کی وجہ سے۔

انہوں نے صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شارلٹ کے کیس کا جائزہ لیا گیا ہے، اور ان کے لیے نیوزی لینڈ واپسی کی گنجائش بنتی ہے۔

35 سالہ شارلٹ بیلس نے قطر میں قائم نیوز نیٹ ورک الجزیرہ کی افغانستان کی نامہ نگار کے طور پر کام کیا تھا۔ انہوں نے نومبر میں استعفیٰ دے دیا تھا کیونکہ قطر میں غیر شادی شدہ ہو کر حاملہ ہونا غیر قانونی ہے۔

اس کے بعد وہ بیلجیئم روانہ ہوگئیں اور اپنے ساتھی فری لانس فوٹوگرافر جم ہوئلبروک کے آبائی ملک میں رہائش حاصل کرنے کی کوشش کی، لیکن اس میں وقت اتنا لگنا تھا کہ ان کے ویزے کی مدت ختم ہوجانی تھی۔ حمل کے دوران ایک ملک سے دوسرے ملک سیاحتی ویزا پر سفر بہت مہنگا پڑتا اور صحت کی سہولت بھی میسر نہ ہوتی اس لیے انہوں نے واپس افغانستان جانے کا فیصلہ کیا، جہاں کا ویزا ان کے پاس تھا۔ 

ان کے بقول جوڑے نے وہاں خوش آئند محسوس کیا اور وہاں سے وہ اپنے گھر واپس جانے کے لیے کوششیں شروع کیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین