حاملہ خواتین کے لیے کرونا ویکسین: ’فوائد ممکنہ خطرات سے کہیں زیادہ‘

حکومت اور ماہرین صحت نے حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے کرونا ویکسین تجویز کر رکھی ہے تاہم ایسے اعدادوشمار موجود ہی نہیں جن سے معلوم ہو سکے کہ کتنی فیصد حاملہ خواتین نے ویکسین لگوائی ہے۔

اسلام آباد کے ایک ویکسیشن سینٹر میں ایک خاتون کو کرونا ویکسین لگائی جا رہی ہے (اے ایف پی فائل)

’حمل میں کرونا وائرس کی بہت پریشانی تھی، جیسے ہی میرے ڈاکٹر نے کہا کہ اب آپ ویکسین لگوا لیں، میں اگلے ہی دن ویکسینیشن سینٹر پہنچ گئی اور پہلی خوراک لگوا لی۔‘

یہ کہنا تھا 27 سالہ آمنہ امام کا جو معذور افراد کے لیے سرگرم ایک ادارے میں کام کرتی ہیں اور روز ان کی سینکڑوں افراد سے ملاقات ہوتی ہے۔

آمنہ امام حمل کے آٹھویں ماہ میں ہیں اور اپنے پہلے بچے کے لیے بہت خوش ہیں، اس کے آنے کا بیتابی سے انتظار کر رہی ہیں مگر ساتھ ہی ساتھ اپنے کام کی نوعیت سے انہیں یہ پریشانی بھی لاحق ہے کہ کہیں اتنے لوگوں سے ملاقاتوں میں انہیں جانے انجانے میں کرونا وائرس نہ لگ جائے جو ان کے اور ان کے ہونے والے بچے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

’ڈیلٹا ویریئنٹ سے میں اور بھی پریشان ہوگئی کہ کہیں میری وجہ سے بچے کو لگ گیا تو کیا کروں گی، کیا محسوس کروں گی، اس کی ذمہ دار تو میں ہوں گی۔‘

وہ بتاتی ہیں کہ حمل کے شروع کے دنوں میں کرونا ویکسین نے ملک میں اتنا زور نہیں پکڑا تھا اور تب ڈاکٹر نے بھی لگوانے کا مشورہ نہیں دیا تھا۔ وہ دن ایسے ہی بیماری کی پریشانی اور اس سے بچاؤ کے لیے احتیاط کرتے گزرے مگر جیسے جیسے ریسرچ اور وائرس کے بارے میں معلومات میں اضافہ ہوا تو ان کے ڈاکٹر نے بھی کہہ دیا کہ وہ ویکسین لگوا لیں کیونکہ وائرس لگنے کی صورت میں خطرات ویکسین کے ممکنہ مضر اثرات سے کہیں زیادہ ہیں۔

پاکستان میں کرونا وبا سے نمٹنے کے لیے بننے والے نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر (این سی او سی) کی ویب سائٹ کے مطابق حاملہ اور دودھ پلانے والی خواتین کرونا ویکسین لگوا سکتی ہیں۔ مگر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس حوالے سے سرکاری سطح پر عام اعلانات نہیں کیے گئے ہیں اور بہت سی حاملہ خواتین اس بات سے واقف نہیں کہ ویکسین ان کے لیے محفوظ ہے۔

ہم نے جتنی حاملہ خواتین سے اس سلسلے میں بات کی ان میں سے بیشتر نے یہی کہا کہ حکومتی اعلان کا تو پتہ نہیں مگر انہوں نے اپنے ڈاکٹر کی ہدایت کے بعد ویکسین لگوا لی، جیسے آمنہ امام نے بھی کیا۔

اسلام آباد کی ایک کچی آبادی میں مقیم ثانیہ نے بتایا کہ انہیں بھی علم نہیں تھا کہ آیا حاملہ خواتین کے لیے ویکسین منظور ہوگئی ہے یا نہیں۔

ان کے بقول اہل خانہ کے دفتر والوں نے جب ملازمین کے ساتھ ساتھ باقی خاندان کے لیے ویکسین لازمی قرار دی تو گذشتہ ماہ وہ اپنے خاندان کے ہمراہ ایک ویکسنیشن سینٹر گئیں جہاں بغیر کسی سوال جواب کے ان کو بھی ویکسین لگا دی گئی۔

ثانیہ جو حمل کے نویں ماہ میں ہیں نے بتایا: ’میں اس کے بعد اپنے ماہانہ چیک اپ کے لیے گئی تو نرس نے کہا کہ آپ کو ویکسین نہیں لگوانی چاہیے تھی۔ مگر میں ٹھیک ہوں اور اب تک تو کوئی مضر اثرات سامنے نہیں آئے۔‘

راولپنڈی سے تعلق رکھنے والی گھریلو خاتون عروج علی بتاتی ہیں کہ وہ بھی اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں گی اور اگر ان کی ہاں ہوئی تو وہ ویکسین لگوا لیں گی۔

عروج، جن کے ہاں دسمبر میں دوسرے بچے کی پیدائش متوقع ہے، نے بتایا کہ ان کے خاندان میں کئی لوگ کرونا وائرس سے متاثر ہوئے ہیں اور بیماری کو اتنے قریب سے دیکھنے کی وجہ سے انہیں ویکسین لگوانے میں کوئی جھجھک نہیں ہوگی۔

وہ کہتی ہیں کہ بدقسمتی ہے کہ بہت سے لوگ اب بھی وبا کو سنجیدہ نہیں لے رہے اور نہ ہی خود اپنے طور پر ویکسین لگوا رہے ہیں۔

ڈیٹا کا فقدان

حکومتی اعدادوشمار کے مطابق ملک میں 11 لاکھ 90 ہزار سے زائد کرونا کیسز ریکارڈ ہوچکے ہیں اور اب تک دو کروڑ سے زائد افراد مکمل طور پر ویکسین لگوا چکے ہیں۔ تاہم بیمار ہونے والوں اور ویکسین کی مکمل خوراک لگوانے والوں میں سے حاملہ خواتین یا دودھ پلانے والی ماؤں کی شرح یا تعداد کتنی ہے، ایسے اعددوشمار کسی ڈیٹا بیس میں میسر نہیں۔

گذشتہ ماہ دو حاملہ خواتین جن کو ویکسین نہیں لگی تھی کرونا کا شکار ہو کر جان سے گئیں جس کے بعد وزیر اعظم کے سابق مشیر برائے صحت ڈاکٹر ظفر مرزا نے بھی ٹویٹ میں کہا کہ حاملہ خواتین کو ویکیسن لگوانی چاہیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کے لیے حکومت کی جانب سے کونسی ویکسین تجویز کردہ ہے اور طبی اداروں کے عملوں پر اس تجویز کو کس حد تک واضح کیا گیا ہے، ان سوالوں کے جواب کے لیے وزیر اعظم کے مشیر برائے صحت ڈاکٹر فیصل سلطان کے دفتر سے کئی بار رابطہ کیا گیا مگر کوئی جواب موصول نہ ہوا۔

البتہ ڈاکٹر فیصل اگست میں میڈیا بریفنگ میں کہہ چکے ہیں کہ حاملہ خواتین اور دودھ پلانے والی ماؤں کو حکومتی تجویز یہی ہے کہ وہ ویکسین لگوا لیں۔

’ویکسین کے فوائد خطرے سے زیادہ ہیں‘

پاکستان میں سوسائٹی آف آبزٹیٹرکس اینڈ گائناکالوجسٹس نے جولائی میں ہی تجویز کر دیا تھا کہ حاملہ خواتین کرونا ویکسین لگوائیں۔

ایک پوزیشن پیپر میں سوسائٹی نے کہا کہ کووڈ 19 سے جڑی بیماریوں سے غیر حاملہ حواتین کے مقابلے میں حاملہ خواتین کو کئی زیادہ خطرہ ہے۔ ان بیماریوں سے ہسپتال میں داخلے، انتہائی نگہداشت وارڈ میں منتقلی اور موت تک کا خطرہ ہے، ’اس لیے ماں اور بچے کو کرونا سے بچانا نہایت اہم ہے۔‘

ان کے بقول ویکسین سے ممکنہ خطرات اس کے فوائد سے کہیں کم ہیں اور سوسائٹی حاملہ خواتین کے لیے ویکسین تجویز کرتی ہے۔

سندھ کے سب سے بڑے سرکاری ہسپتال کراچی کے جناح ہسپتال میں گائناکالوجسٹ ڈاکٹر شفق اسمعٰیل نے بتایا کہ گذشتہ ماہ سے او پی ڈی میں آنے والی حاملہ خواتین کو ڈاکٹر یہی تجویز کر رہے ہیں کہ وہ کرونا ویکسین لگوا لیں۔

ڈاکٹر شفق، جنہوں نے کرونا کے مریضوں کی بھی زچگی کروائی ہوئی ہے، نے بھی یہی کہا کہ ویکسین کے فوائد اس سے جڑے رسک یا کرونا ہونے کی صورت میں ہونے والی پیچیدگیوں سے کہیں زیادہ ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ حمل کے دوران اور زچگی کے بعد ویسے ہی خاتون کی قوت مدافعت بہت کم ہوتی ہے جس سے انہیں بیماریاں لگنے کا خطرہ اور بھی زیادہ ہوتا ہے۔ ایسے میں اگر کسی حاملہ خاتون کو کرونا ہو جائے تو ان کے لیے اور بھی خطرناک ہو سکتا ہے۔

ڈاکٹر شفق نے سمجھایا کہ حمل کے دوران بچہ دانی کے سائز میں اضافہ ہونے کی وجہ سے پھیپھڑوں پر زور پڑ رہا ہوتا ہے، ایسے میں اگر خاتون کو کرونا ہو جائے اور سینے میں انفیکشن ہوجائے تو سانس لینے میں مزید مشکل ہوسکتی ہے جس سے نہ صرف ماں کو خطرہ ہوتا ہے بلکہ پیٹ میں بچے کو بھی آکسیجن کی کمی ہو سکتی ہے۔

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایسی بھی مریضہ آئیں جن کو کرونا کے دوران زچگی کروانا پڑی اور کچھ اتنی بیمار تھیں کہ وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑی اور وہ زندہ نہ رہ سکیں۔

ڈاکٹر شفق کہتی ہیں کہ حمل کے دوران کم قوت مدافعت میں ویکسین لگ جائے تو خواتین کے لیے بہتر ہے کیونکہ اگر وائرس لگ بھی جائے تو ویکسین کی اینٹی باڈیز کی وجہ سے بیماری اتنی سنگین نہیں ہوگی کہ ہسپتال یا وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑے اور اس سے ماں اور بچے دونوں کی جان بچ سکتی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی صحت