بچہ موبائل گیم کی لت کا شکار ہو تو علاج کروائیں: ماہر نفسیات

ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور کے مطابق ماں اور بہن بھائیوں کو قتل کرنے والا 18 سالہ زین پب جی گیم میں مسلسل شکست کی وجہ سے دباؤ کا شکار تھا۔

28 جون، 2019 کو جکارتہ میں منعقدہ مقابلے کے دوران ایک پلیئر پب جی گیم کھیلتا ہوا نظر آ رہا ہے (اے ایف پی)

چند روز قبل لاہور کے علاقے کاہنہ میں ایک ماں اور اس کے تین بچوں کو گولیاں مار کر قتل کرنے کا واقعہ پیش آیا۔ پولیس نے کیس کی تحقیقات میں مقتولہ کے 18 سالہ علی زین کو ملزم قرار دیا ہے۔

ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور نے پیر کو میڈیا بریفنگ میں بتایا کہ موبائل گیم پب جی کھیلنے کا عادی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ملزم نے گھر میں موجود پسٹل سے ماں، بہنوں اور بھائی کو قتل کیا اور گیم کی طرح ٹاسک مکمل ہونے کے بعد گھر کے نچلے حصہ میں جا کر سو گیا۔

عمران کشور کے مطابق علی نے اعتراف کیا کہ پب جی گیم میں بار بار شکست کی وجہ سے اس کے ذہنی دباؤ میں اضافہ ہوا اور اس نے یہ سوچ کر گولیاں چلائیں کہ گیم کی طرح سب دوبارہ زندہ ہوجائیں گے۔

انہوں نے مزید بتایا کہ ملزم نے مجسٹریٹ کے روبرو 164ض ف کے بیانات میں اپنے جرم کا اعتراف کیا ہے۔  

اس واقعے کے میڈیا پر رپورٹ ہونے کے بعد ایس ایس پی انویسٹی گیشن عمران کشور کے مطابق لاہور انویسٹی گیشن پولیس نے پب جی گیم  پر پابندی کے لیے آئی جی پنجاب کو خط لکھ دیا ہے۔

کیا ویڈیو گیمز لوگوں کو جان لینے تک لے جا سکتے ہیں؟

انسانی نفسیات کے ماہر اور ہر قسم کی لت سے نجات کے لیے 'برج' نامی ری ہیب سینٹر چلانے والے ڈاکٹر ابو الحسن نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہا کہ حد سے زیادہ گیمنگ دراصل ’انٹرنیٹ ایڈیکشن ڈس آرڈر‘ کے زمرے میں آتی ہے اور یہ باقاعدہ ایک ذہنی بیماری ہے۔

انہوں نے بتایا کہ اس ڈس آرڈر کے ساتھ ان کے پاس پانچ اقسام کے مریض آتے ہیں۔ سائبر سیکس، نیٹ گیمبلنگ، سائبر آن لائن تعلقات، زبردستی معلومات کی تلاش (compulsive information seeking)، اور آن لائن گیمنگ۔  

’جب آپ گیم کھیل رہے ہوتے ہیں اور اس میں آپ جیتتے یا ہارتے ہیں۔ دونوں صورتحال میں آپ کے دماغ کو وہی کیفیت یا مزہ ملتا ہے جو منشیات کے استعمال سے ملتا ہے اور یہ تھوڑا تھوڑا کر کے بڑھتا رہتا ہے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ہمارے دماغ میں اللہ نے صلاحیت رکھی ہے جسی نیورو پلاسٹیسٹی کہتے ہیں۔ اس کی مدد سے آپ اپنے دماغ کو مثبت یا منفی جس طرف لے کر جانا چاہیں گے یہ چلا جائے گا۔‘

انہوں نے علی کے کیس کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’گیم کھیلنے کے دوران بچے گیم کے کرداروں کو مارتے ہیں، زیادہ سے زیادہ سکور بناتے ہیں جس سے ان کے اندر ایک منفی کیفیت پیدا ہوتی ہے جس کا انہیں مزہ آتا ہے۔‘

ان کا کہنا تھا کہ اگر ایک گیم زیادہ عرصے تک کھیلا جائے تو کھیلنے والا اس میں گم ہو جاتا ہے۔

کیا پرتشدد گیمز پر پابندی مسئلے کا حل ہے؟ 

اس حوالے سے انڈپینڈنٹ اردو نے مختلف لوگوں کی رائے جاننے کی کوشش کی۔ 

ایک خاتون ماریہ محمود نے پابندی سے اتفاق کیا اور کہا ’میرے خیال میں ہمارے ہاں بچوں کے لیے دستیاب مواد پر والدین کی نگرانی کا فقدان ہے۔ بہت چھوٹی عمر میں ان کے سامنے بہت سا مواد آرہا ہے اور اس میں زیادہ تر مواد نامنساب ہے۔ بطور والدین ہمیں اس پر سخت کنٹرول رکھنے کی ضرورت ہے کہ وہ آن لائن کیا دیکھتے ہیں یا کیا کھیلتے ہیں۔‘

انہوں نے اپنے گھر کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ ’پوری دنیا فورٹ نائٹ کھیل رہی ہے لیکن میں نے اب تک اپنے گھر میں اس کی اجازت نہیں دی۔‘

ایک اور خاتون فاطمہ اطہر کے خیال میں پب جی گیم پر پابندی لگانے سے زیادہ ضروری ہے کہ ’ہم اپنے بچوں کو ذہنی صحت کے بارے میں شعور بیدار کریں اور ذہنی صحت کے لیے ماہرین کی مدد کو مزید قابل رسائی بنائیں۔‘

والدین کس حد تک ذمہ دار؟ 

ڈاکٹر ابوالحسن کا کہنا ہے کہ اس میں والدین کا کردار بہت اہم ہے۔ ’والدین یا باقی گھر والے بچوں کو مصروف رکھنے کے لیے گیمز خرید کر دیتے ہیں انہیں انٹرنیٹ مہیا کرتے ہیں اور باقی گیمنگ کے لوازمات بھی فراہم کر دیتے ہیں۔‘  

انہوں نے بتایا کہ ان کے پاس ایک ایسا ہی بچہ علاج کے لیے آیا جو اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔

انہوں نے مزید بتایا کہ مذکورہ بچے کے والدین نے گیمنگ کے لیے تمام سہولیات فراہم کر دیں جس کی وجہ سے وہ اس کی لت کا شکار ہو گیا اور اس نے کھانا پینا، سونا سب چھوڑ دیا۔

’وہ بچہ میرے پاس آیا ہم نے اس کا علاج کیا اور وہ کافی حد تک بہتر ہو گیا۔ تاہم وہ بعد میں ایک ٹریفک حادثے میں ہلاک ہو گیا۔‘

انہوں نے مشورہ دیا کہ والدین گیمنگ کی لت میں مبتلا اپنے بچوں کو کسی ری ہیب سینٹر لے کر جائیں کیونکہ اگر اسے گھر میں رکھ کر پابندیاں عائد کی گئیں تو وہ ردعمل میں کسی کا نقصان کر سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ہاں سکول کالجز میں یورپ، امریکہ اور دیگر ممالک کی طرح کم عمر بچوں کی کونسلنگ کی روایت نہیں اس لیے ہمارے ہاں یہ مسئلہ زیادہ سامنے آتا ہے۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

لاہور پولیس کے مطابق پب جی گیم کی وجہ سے ایسا واقعہ پہلی بار پیش نہیں آیا بلکہ اس سے قبل کم از کم تین نوجوان مبینہ طور پر اس گیم کی وجہ سے خودکشی کر چکے ہیں۔

حالیہ واقعے سے پہلے بھی اس گیم پر پابندی لگانے کے لیے کوششیں کی جاتی رہیں لیکن یہ ممکن نہ ہوسکا۔ 

پب جی پر پابندی کے لیے عدالت سے رجوع

لاہور ہائی کورٹ میں ایک شہری تنویر سرور نے پب جی کو پاکستان میں بند کرنے کے لیے تازہ درخواست دائر کی ہے۔ تاہم درخواست گزار کے وکیل کی غیرموجودگی کے سبب یہ سماعت ہو نہ سکی۔

اس درخواست میں وفاقی سیکریٹری قانون، پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) اور پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کو فریق بنایا گیا ہے۔ 

تنویر سرور نے اپنی درخواست میں موقف اپنایا کہ کچھ نوجوان ان گیمز کے عادی ہو چکے ہیں۔ انہوں نے اپنی درخواست میں کہا کہ عالمی ادارہ صحت نے 2018 میں آن لائن گیمنگ کی لت کو ذہنی صحت کی خرابی قرار دیا تھا۔

انہوں نے عدالت سے استدعا کی کہ نوجوانوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے بغیر کسی تاخیر کے اس گیم پر پابندی عائد کرنے کی ضرورت ہے۔

گلف نیوزکے مطابق 2021 میں پب جی گیم کھیلنے کی عادی 11 سالہ بچی نے مبینہ طور پر اس گیم کی وجہ سے خود کشی کی۔

اسی طرح بھارتی میڈیا میں بھی اس کھیل کی وجہ سے کچھ مبینہ خودکشیاں رپورٹ ہوئیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان