مائنس نواز اور زرداری

یوں تو شریف اور زرداری خاندان ایک دوسرے پر ہی بنائے گئے کیس بھگت رہے ہیں مگر اب ایک دوسرے کے منہ کو دیکھ کر اکٹھے بھی ہو رہے ہیں۔

نواز شریف اور آصف علی زرداری 7 اگست، 2008 کو اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے (اے ایف پی)

آج 29 اگست 2017 ہے، آصف علی زرداری کل 17 کیسوں میں بری ہونے کے بعد پریس کانفرنس کرنے والے ہیں، ایف ایٹ میں واقع بلاول ہاؤس میں آج معمول سے زیادہ صحافیوں کا تانتا لگا ہوا ہے، ہال میں  بیٹھنے کے لیے کوئی نشست خالی نہیں۔

حامد میر جنہیں خاص طور پر آج مدعو کیا گیا ہے، وہ بھی ایک اور صحافی کے ساتھ کرسی شیئر کر رہے ہیں۔ زرداری، جن کا عوام میں آج بھی تاثر کرپٹ اور مسٹر ٹن پرسنٹ کا ہے، نیب کے تمام کرپشن کیسز میں بری ہو گئے ہیں۔

زرداری صاحب خود اعتمادی سے بول رہے ہیں: ’جو لوگ کہتے تھے ہم نے سوئس بینکوں میں پیسہ رکھا، سونے سے بھرے ٹرک ہمارے پاس ہیں، وہ لوگ آج کہاں ہیں؟ آج مجھے بری کر دیا گیا، کاش آج بی بی زندہ ہوتیں تو آج بڑی خوش ہوتیں۔‘

صحافیوں نے ڈیل کے بارے میں بھی پوچھا تو زرداری صاحب مسکراتے ہوئے ٹالتے رہے۔ ان دنوں اس وقت کے چیف جسٹس پاکستان ثاقب نثار ٹی وی سکرینوں کی زینت بن رہے تھے، ایک ماہ قبل نوازشریف نااہل ہو گئے تھے، زرداری صاحب سے پوچھا گیا کہ کیا اب مائنس نواز اور مائنس زرداری فارمولا لاگو کیا جا رہا ہے؟

اس پر آصف زرداری بولے کہ موجودہ چیف جسٹس (ثاقب نثار) عقل مند آدمی ہیں وہ جوڈیشل مارشل لا نہیں لگائیں گے۔

دو برس آگے کو چلتے ہیں۔ آج سال 2019 کے جون کی سخت گرمی ہے، نواز شریف اور آصف زرداری دونوں حوالات میں ہیں، نواز شریف کو لگ بھگ ایک دہائی کے لیے مائنس کر دیا گیا ہے۔

وہ 70 برس کے ہونے والے ہیں، جب 80 کو پہنچیں گے تو حالات و واقعات بدل چکے ہوں گے، لوگوں کی سوچ بھی تبدیل ہو جائے گی۔

آصف علی زرداری کو نیب کی گرفتاری کے بعد پہلی باراحتساب عدالت پیش کیا گیا تو میرے ذہن میں ایک سوال گونج رہا تھا جو میں نے ان سے کمرہ عدالت میں پوچھ لیا ’جس طرح نواز شریف کو پارلیمنٹ سے آؤٹ کر دیا گیا، کیا اب وہی فارمولا آپ پر لاگو کیا جارہا ہے؟‘ یعنی مائنس نواز اینڈ زرداری ہو نے جا رہا ہے۔

آصف زرداری نے جواباً کہا: ’فرق کیا پڑے گا میں نہیں ہوں گا تو بلاول ہو گا، بلاول نہیں ہوگا تو آصفہ ہو گی۔‘

زرداری صاحب سے ہم صحافی گفت و شنید کر رہے تھے اور وہ کمرہ عدالت میں سگریٹ کے کش لگا رہے تھے۔

کمرہ عدالت میں انگڑائیاں لیتا ہوا سگریٹ کا دھواں میں شاید پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ ہمارے ایک دوست نے دبے الفاظ میں ان سے کمرہ عدالت میں سگریٹ پینے، دھواں اڑانے کے بارے میں پوچھا تو آصف زرداری نے مسکراتے ہوئے جواب دیا ’ابھی جج صاحب نہیں ہیں، تو یہ صرف کمرہ ہے، جب جج آجائیں گے تو یہ پھرعدالت بنے گی۔‘

آصف زرداری  کو رخسانہ بنگش نے کال ملا کر دی اور وہ آصفہ بھٹو سے موبائل پر خوش گپیوں میں مصروف ہو گئے۔ تھوڑی ہی دیر گزری کہ شریف خاندان کے ایک اور سپوت حمزہ شہباز کو بھی نیب نے دھر لیا۔

آصف زرداری کو بتایا تو انہوں نے نیب کی اس گرفتاری کی مذمت کی، مگر جب کچھ دیر بعد الطاف حسین کی گرفتاری کے بارے میں آگاہ کیا گیا تو جواب دیا ’مجھے اس کا علم نہیں۔‘

میں نے سابق صدر سے کہا ملکی تمام میڈیا یہ خبر چلا رہا ہے مگر زرداری صاحب نے بیک فٹ پر کھیلتے ہوئے دوبارہ کہا ’مجھے کنفرم نہیں ہے۔‘

آصف زرداری کی گرفتاری کے بعد کہا گیا ایک جملہ دوبارہ عوام میں پذیرائی حاصل کر رہا ہے: ’چیئرمین نیب کی کیا مجال ہے اس کی کیا حیثیت ہے۔‘

ہمارے ایک دوست صحافی نے آصف زرداری کی نیب کے ہاتھوں گرفتاری پر پوچھا ’آپ تو کہا کرتے تھے کہ چیئرمین نیب کی کیا مجال ہے مگر آج نیب نے ہی آپ کو گرفتار کر رکھا ہے۔‘

تو سابق صدر آصف  زرداری نے جواب دیا: ’میں اب بھی کہتا ہوں چیئرمین نیب کی کیا مجال ہے یہ سب تو سرکار کروا رہی ہے۔‘

ایک طرف حکومت کہہ رہی ہے کہ نیب آزاد اور خود مختار ادارہ ہے تو دوسری جانب اپوزیشن اس کو حکومت کا آلہ کار قرار دے رہی ہے۔

اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ وزیراعظم عمران خان کو احتساب کیسوں پر بالکل سمجھوتہ نہیں کرنا چاہیے لیکن اپوزیشن سلیکٹڈ احتساب کا شکوہ کر رہی ہیں اور اپوزیشن رہنماؤں ہی کی گرفتاریاں اس تاثرکو تقویت بھی دے رہی ہیں۔

پاکستان میں جب سیاست دان گرفتار ہو جائیں تو ہمدردی کے ووٹ بھی بڑھ جاتے ہیں۔ آصف زرداری نے بھی تیسری دنیا کے ملکوں میں گرفتاری کو سیاست کا حسن قرار دے دیا۔

آصف زرداری آج جس نشست پر احتساب عدالت میں براجمان تھے اس نشست پر اب سے کچھ ماہ قبل سابق وزیراعظم نواز شریف بھی تشریف فرما رہے اور آج وہ بطور مجرم حوالات میں بند ہیں۔

نواز شریف کے خلاف تین کیس تھے جن میں سے دو میں ان کی بلی چڑھائی گئی۔ آصف زرداری پر نیب میں آٹھ کیس چل رہے ہیں، دیکھتے ہیں ان کی قسمت میں کیا لکھا ہے۔

آصف زرداری میں باقی سیاست دانوں سے بڑھ کر ایک خوبی ضرور پائی جاتی ہے کہ وہ فیصلے خلاف آنے پر عدلیہ پر لعن طعن نہیں کرتے، جو بھی فیصلہ ہو اسے تسلیم کرتے ہیں۔

وہ خود بھی کہتے ہیں کہ جب میرے خلاف کیس کھل جائیں تو عدلیہ کے ساتھ چلتا رہتا ہوں جو کہ ان کی عملی سیاست کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

آصف زرداری 15 سال کی طویل مدت تک جیل سے باہر رہے۔ ان کو خوب اعتماد تھا کہ ان کیسز سے بھی وہ جیل نہ جائیں گے کیونکہ ان کے خیال میں مقتدر طبقے کو ابھی ان کی ضرورت ہے۔

بلاول بھٹو سے بھی پی ٹی ایم کے حق میں بیانات د لوائے جا رہے تھے، جس سے آصف زرداری مقتدر طبقے کو  یہ باور کرا رہے تھے کہ پی ٹی ایم کا مسئلہ بھی میرے ذریعے حل ہو سکتا ہے مگر فیصلہ سازوں کو اس بار آصف زرداری منظور نہ تھے، وہ یہ چھوٹے مسئلے خود ہی حل کر سکتے تھے۔ پس زرداری کو اس بار بازی ہارنا پڑی۔

اسلام آباد ہائی کورٹ  کے کمرہ عدالت نمبر دو میں بیٹھے آصف زرداری کے چہرے کے تاثرات مجھے بھی یاد ہیں۔ اندر سے غمگین مگر چہرے پر وہی روایتی مسکان، جب فیصلہ محفوظ ہوا تو ان کے چہرے پر رنجش نمودار ہونا شروع ہوئی۔

ضمانت قبل از گرفتاری کے کیس میں ملزم کا کمرہ عدالت میں موجود ہونا ضروری ہوتا ہے، آصف زرداری بار روم گئے تاکہ باقی کیس نمٹنے کے بعد کمرہ عدالت واپس آجائیں۔

بار روم میں ان کو فیصلے سے پہلے ریڈ سگنل دیا گیا، جس کے بعد وہ رنجش کے عالم میں فوراً سے پہلے ہائی کورٹ سے چلتے بنے، پھر وکلا سے مشاورت کے بعد اپنے گھر سے نیب کو گرفتاری دے دی۔

آصف زرداری نیب راولپنڈی کی حوالات میں یہ ضرور سوچ رہے ہوں گے کہ میں تو مقتدر طبقے کے ساتھ چلنے کا حامی تھا مگر میری  ضرورت اب کیوں نہیں محسوس ہو رہی۔

یوں تو شریف اور زرداری خاندان ایک دوسرے پر ہی بنائے گئے کیس بھگت رہے ہیں مگر اب ایک دوسرے کے منہ کو دیکھ کر اکٹھے بھی ہو رہے ہیں۔

اندر ہی اندر سےایک دوسرے کو برا بھلا بھی کہتے ہیں۔ ایک سوچتا ہے کہ بلوچستان میں ہماری حکومت نہ گراتے، سینیٹ میں ہمارے ساتھ چلتے، شہباز شریف کو بھی تو تم وزیر اعظم کے لیے ووٹ نہیں ڈال رہے تھے تو دوسرا کہتا ہے کہ جعلی اکاؤنٹس کیس ہم پر نہ کھلوائے جاتے تو آج یہ نوبت نہ آتی۔

شاید سیاست میں کوئی چیز بری نہیں، سب چلتا ہے بھائی۔

زیادہ پڑھی جانے والی نقطۂ نظر