پاکستان کے شمالی علاقوں میں درجہ حرارت کم ہونے کے باعث ملک کے بڑے آبی ذخائر میں پانی کی سطح غیر معمولی حد تک کم ہو گئی ہے۔
صوبوں کے درمیان پانی کی تقسیم پر عمل درآمد کرنے والے ادارے انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) کے مطابق تربیلا ڈیم میں پانی کی سطح ڈیڈ لیول (1392فٹ) سے صرف ایک فٹ اونچی رہ گئی ہے۔ تربیلا ڈیم میں1550فٹ اونچائی تک پانی ذخیرہ کیا جا سکتا ہے۔
چشمہ بیراج میں 638 فٹ کے ڈیڈ لیول کے مقابلے میں پانی کی سطح صرف 643 فٹ رہ گئی ہے۔ اسی طرح منگلا ڈیم میں پانی کی موجودہ سطح ڈیڈ لیول سے 109فٹ اوپر ہے۔
ارسا کے ترجمان خالد ادریس رانا نے انڈپینڈنٹ کو بتایا سطح کم ہونے سے مراد ہے کہ پانی کی آمد اخراج سے بہت کم ہے اور اسی لیے ذخائر میں پانی کی سطح ڈیڈ لیولز کے قریب پہنچ رہی ہے۔
پیر کو ملک کے مختلف دریاؤں سے (رِم سٹیشنز پر) پانی کی آمد اڑھائی لاکھ کیوسک ریکارڈ کی گئی جبکہ انہی مقامات پر پانی کا اخراج تقریبا تین لاکھ کیوسک رہا۔
انہوں نے کہا تربیلا ڈیم سے اس وقت کوئی پانی نہیں مل رہا اور خریف کی فصل خصوصا چاول کی ضرورت پوری کرنے کے لیے منگلا سے پانی کا اخراج بڑھا دیا گیا ہے۔
انہوں نے مزید کہا ارسا پنجاب کو 45 ہزار کیوسک پانی دے رہی ہے جبکہ بلوچستان کو 40 ہزار کیوسک۔
خالد ادریس رانا نے بتایا پانی کی کمی کی سب سے بڑی وجہ پاکستان کے شمالی علاقوں میں درجہ حرارت کی کمی ہے جس کے باعث گلیشئیرز پگھلنے کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
’شمالی علاقہ جات خصوصا سکردو میں نہ صرف درجہ حرارت کم ہے بلکہ آسمان پر بادل بھی موجود ہیں۔ جس سے گرمی میں اضافہ نہیں ہو رہا۔‘
پیر کو سکردو میں درجہ حرارت اٹھارہ ڈگری سینٹی گریڈ رہا جبکہ آئندہ ہفتے تک اس میں مزید کمی کا امکان ہے۔ گذشتہ ہفتے وادیِ چترال کے بعض بالائی حصوں میں برف باری بھی ہوئی تھی، جس سے وہاں کا درجہ حرارت کافی کم ہوا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خالد ادریس رانا کے مطابق شمالی علاقوں میں جون کے مہینے میں اتنے کم درجہ حرارت کی مثال نہیں ملتی۔
انہوں نے کہا کہ ان دنوں سکردو میں درجہ حرارت کم از کم 30 ڈگری سینٹی گریڈ ہونا چاہیے، جس سے گلیشئیرز کے پگھلنے کا عمل تیز ہو سکتا ہے۔
محکمہ موسمیات کے فورکاسٹنگ آفیسر راشد بلال نے بتایا کہ اس مرتبہ مغربی ہوائیں زیادہ عرصے تک چل رہی ہیں، جس کے باعث درجہ حرارت میں اضافہ نہیں ہو رہا۔ ’اسی لیے رمضان میں سارے ملک کا موسم کافی بہتر رہا۔‘
راشد بلال کے مطابق عام طور پر جون میں مغرب سے آنے والی ہوائیں بند ہو جاتی ہیں تاہم اس مرتبہ ایسا نہیں ہوا۔
انہوں نے کہا شمالی علاقوں میں غیر معمولی کم درجہ حرارت کی وجہ بھی یہی ہوائیں ہیں۔ ’ان ہوائیں کے مزید جاری رہنے سے مون سون میں زیادہ بارشوں کا امکان بھی ہو سکتا ہے۔‘
محکمہ واٹر مینجمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر طاہر انور نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ فی الحال خریف کی فصل کے لیے صوبوں کو پانی ان کی ضرورت کے مطابق مل رہا ہے۔
انہوں نے کہا چاول کی فصل لگ رہی ہےجبکہ کپاس کی کاشت چند ایک روز میں شروع ہو جائے گی۔
ڈاکٹر طاہر انور کے مطابق جولائی میں مون سون شروع ہو جائے گا اور پانی کی فراوانی ہو گی۔ ’اس لیے فی الحال پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔‘