پیپلز پارٹی اور پی ڈی ایم میں بڑھتی قربت

پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمد اللہ نے منگل کو مقامی ٹی وی چینل سے گفتگو میں بتایا ہے کہ ’پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اور پیپلز پارٹی اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ حکومت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے اور حکومت کو گھر بھیجا جائے۔‘

 سابق صدر آصف علی زرداری سے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قائد حزب اختلاف شہباز شریف کی بلاول ہاؤس میں ملاقات کے لیے آمد پر استقبال (تصویر: پیپلز پارٹی میڈیا)

پاکستان میں حزب مخالف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے لانگ مارچ کی حمایت کرے گی تاہم یہ واضح نہیں کیا گیا کہ پی ڈی ایم اس میں کراچی سے شریک ہوگی یا نہیں۔

پی ڈی ایم کے ترجمان حافظ حمد اللہ نے منگل کو مقامی ٹی وی چینل سے گفتگو میں بتایا ہے کہ ’پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں اور پیپلز پارٹی اس بات پر متفق ہوگئے ہیں کہ حکومت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنائی جائے اور حکومت کو گھر بھیجا جائے۔‘

انہوں نے بتایا کہ پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان رابطوں کا سلسلہ مولانا فضل الرحمٰن کے تحریک عدم اعتماد لانے کے اعلان کے بعد شروع ہوا تھا اور گذشتہ روز دونوں رہنماؤں کی ون آن ون ملاقات بھی ہوئی تھی۔

حافظ حمد اللہ کا کہنا ہے کہ ’دونوں رہنماؤں کے درمیان تحریک عدم اعتماد اور لانگ کی حکمت عملی اور نمبر گیم پر بھی بات ہوئی ہوگی کیوں کہ یہ انفرادی ملاقات تھی لہذا تفصیل معلوم نہیں ہے۔‘

ذرائع ابلاغ میں ذرائع کے حوالے سے گردش کرنے والی خبروں کے مطابق گذشتہ روز کی ملاقات کے بعد پی ڈی ایم اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان اس بات پر اتفاق ہو گیا ہے کہ پی ڈی ایم میں شامل بڑی جماعتیں پاکستان مسلم لیگ ن پنجاب میں اور جے یو آئی ف خیبر پختونخوا میں لانگ مارچ کے شرکا کا استقبال کرے گی۔

اس کے علاوہ بلوچستان، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور گلگت بلتستان میں بھی لانگ مارچ کا استقبال کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

مقامی ذرائع ابلاغ میں ذرائع سے ایسی خبریں بھی آرہی ہیں کہ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف علی زرداری اور جے یو آئی ف کے بانی مولانا فضل الرحمٰن کے درمیاں گذشتہ روز کی ملاقات میں سٹیج لگائے جانے اور اسلام آباد میں جلسہ کرنے اور مقررین کے ناموں پر بھی گفتگو ہوئی ہے لیکن باقاعدہ اس معاملے میں کسی رہنما نے کوئی بیان جاری نہیں کیا ہے۔

اُدھر حکمراں جماعت پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے رہنما کئی بار کہہ چکے ہیں کہ حزب اختلاف کے پاس نمبرز نہیں ہیں اور وہ تحریک عدم اعتماد نہیں لائیں گے۔ اس علاوہ حکومتی جماعت کے وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ مارچ ضرور کریں لیکن قانون کو ہاتھ میں لیا تو کارروائی ہوگی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

وزیر تعلیم شفقت محمود نے پیر کو ذرائح ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں کہا کہ ’خواب دیکھنے میں تو کوئی پابندی نہیں ہے دیکھتے رہیں۔ کوشش کرتے رہیں اگر تحریک عدم اعتماد لانا چاہتے ہیں تو ضرور لائیں لیکن ان کو پہلے بھی ناکامی ہوئی تھی اب پھر ناکامی ہوگی۔‘

اس کے علاوہ حکمراں جماعت کے وزیر داخلہ شیخ رشید احمد منگل کو اپنی پریس کانفرنس کے دوران کہہ چکے ہیں کہ ’پی ڈی ایم تحریک عدم اعتماد لائے تو بھی اور نہیں لائے گی تو بھی پھنسے گی۔‘

انہوں نے عمران خان کو جہانگیر ترین سے بات چیت کرنے اور ’پرانی دوستی‘ کا خیال کرنے کا بھی مشورہ دیا۔

پی ڈی ایم رہنماؤں کی گذشتہ روز ملاقات کے بعد بدھ کے روز پی ایم ایل ن کے صدر شہباز شریف کی رہائش گاہ پر ایک اور ملاقات کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا تھا جس میں پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری، جے یو آئی(ف) کے پارلیمانی قائد مولانا اسعد محمود، فضل الرحمٰن اور تینوں جماعتوں کی سینیئر قیادت کے شریک ہونے کی توقع ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی سیاست