باجوڑ کے گاؤں میں ’موسیقی پر پابندی‘، حکام لاعلم

باجوڑ کے ایک گاؤں میں مقامی جرگے نے ہر قسم کی موسیقی پر پابندی لگائی ہے۔ تاہم ضلعی انتظامیہ اور تھانہ سلارزی نے اس پابندی سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

24 اکتوبر، 2007 کی اس تصویر میں  قبائلی عمائدین مہمند ایجنسی میں جرگہ منعقد کر رہے ہیں (اے ایف پی)

صوبہ خیبر پختونخوا کے ضلع باجوڑ کے ایک گاؤں میں مقامی جرگے نے رواں ہفتے ہر قسم کی موسیقی پر پابندی لگائی ہے۔ تاہم ضلعی انتظامیہ اور تھانہ سلارزی نے اس پابندی سے مکمل لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔

تحصیل سلارزی کے اس گاؤں کے مکینوں سے ملنے والی اطلاعات کے مطابق جرگے میں فیصلہ کیا گیا کہ خوشی کی تقریبات میں موسیقی پر خرچ ہونے والی رقم کو مساجد کی بہبود میں استعمال کیا جائے گا۔

مقامی افراد کا مزید کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر اس خبر کو باجوڑ کی سیاسی شخصیات سمیت دیگر مقامی لوگوں نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر شیئر کیا تھا۔

بعد ازاں اس حوالے سے نہ صرف مکمل خاموشی اختیار کی گئی بلکہ مقامی سیاست دانوں نے پوسٹس ہٹا دیں۔

ڈپٹی کمشنر باجوڑ افتخار عالم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کے علم میں ایسی کوئی بات نہیں۔ ‘البتہ ہم اس کی انکوائری کرکے ذمہ داران کے خلاف قانونی کارروائی کریں گے کیونکہ کسی شہری پر اپنی مرضی مسلط کرنا اور ان پر جبر کرنا آئین پاکستان اور قانون کی خلاف ورزی ہے۔’

تھانہ سلارزی کے سٹیشن ہاؤس آفیسر سعید الرحمٰن کا کہنا ہے کہ پولیس متعلقہ علاقے میں معلومات کرکے بہت جلد میڈیا کو آگاہ کرے گی۔

باجوڑ کے مقامی رپورٹر بلال یاسر نے بتایا کہ باجوڑ کے ‘عالمانو کلے’ میں ایک گھر میں فوتگی اور دوسرے گھر میں شادی کی تقریب چل رہی تھی، جس پراہلیان علاقہ نے تنقید کرتے ہوئے ایک جرگے کے ذریعے ہر قسم کی موسیقی پر پابندی لگوا دی۔

انہوں نے بتایا کہ ‘جرگے میں فیصلہ ہوا کہ گاؤں میں آئندہ شادی بیاہ کی تقریبات میں اگر کسی نے گانا بجانا، ڈانس اور پارٹی وغیرہ کی تو پیش امام صاحب نکاح میں شرکت نہیں کریں گے، ایسے گھروں کی میت کے کفن دفن میں پورا گاؤں شرکت نہیں کرے گا اور نہ ہی ان کے گھر والوں کے ساتھ کوئی تعلقات رکھے گا، جس کو اکثریت نے قبول کیا۔’

بلال یاسر نے مزید بتایا کہ یہ واقعہ جس گاؤں میں پیش آیا اس کا نام ‘عالمانو کلے’ ہے، تاہم اس کا پرانا نام ‘موسیقاروں کا گاؤں‘ تھا۔ ’بعد ازاں اس علاقے میں مذہبی شخصیات کی اکثریت کے بعد نام تبدیل کردیا گیا۔’

انہوں نے بتایا کہ اگرچہ یہ خبر میڈیا میں خاص اہمیت اختیار کر رہی ہے لیکن مقامی لوگوں کے لیے یہ عام بات ہے۔

صوبہ خیبر پختونخوا میں عوامی نیشنل پارٹی کے سیکریٹری ثقافت اور ‘دی میلیٹنٹ ڈسکورس’ کے مصنف خادم حسین کا کہنا ہے کہ صوبے میں شدت پسندی کا اثر 40 سال پہلے شروع ہوا۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ شدت پسندی کی وجہ سے انتہا پسند پشتون علاقوں میں خصوصاً اور پاکستان میں عموماً سرائیت کرکے موسیقی، ثقافت اور ادب کے خلاف ہوگئے، ورنہ 70 کی دہائی سے قبل پشتون معاشرے میں کوئی شخص یا گروہ ایسا کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔

خادم حسین نے مزید کہا کہ موسیقی اور پشتونوں کا تعلق زمانہ قدیم سے ہے، جو نہ صرف خوشی کے موقعوں پر بلکہ عام طرز زندگی میں بھی اس کے ساتھ کافی قریب رہے ہیں۔

انہوں نے بتایا کہ’پاکستان اور افغانستان میں ایک مرتبہ پھر انتہاپسند گروہ کو طاقت ملی ہے، اور وہ درپردہ مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے معاشرے میں انتہا پسندی کو فروغ دیتے ہوئے ہماری ثقافت کو آہستہ آہستہ ختم کر رہے ہیں۔’

خیبر پختونخوا میں فنکاروں کی صوبائی تنظیم ‘ہنری ٹولنہ’ کے صدر اور موسیقی کے پی ایچ ڈی سکالر راشد احمد خان نے کہا کہ پشتون معاشرے کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ اکثریت کتاب پڑھنے سے رغبت نہیں رکھتی، تاہم اگر ان کے سامنے کوئی سبق آموز بات کسی گیت، یا داستان کی شکل میں سنائی جائے تو وہ اس کو غور سے سنتے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انہوں نے بتایا کہ اس بات کا ثبوت پشتون موسیقی میں مختلف ‘جانراز’ جیسے ٹپہ، چاربیتہ، رباعی، بدلہ، نیمکئی اور سندرہ کی موجودگی ہے۔

‘جب ٹی وی اور ریڈیو نہیں تھا تو موسیقی حجروں میں پائی جاتی تھی۔ اہل ذوق موسیقی کے مجلسوں سے کافی محظوظ ہوتے تھے۔ اس

کی ایک اہمیت یہ تھی کہ ان محفلوں میں بعض شعرا اپنے علمی کلاموں  سے معاشرے کا اصلاح کرتے تھے اور لوگ ان سے علم وادب سیکھتے تھے۔’

راشد خان نے کہا کہ موسیقی ثقافت کا حصہ ہے اور یہ دنیا کے تمام قوموں کے  صاحب ذوق ہونے کی عکاسی کرتی ہے۔

ادیب اور تجزیہ نگار خادم حسین کے مطابق باجوڑ میں جرگے کا فیصلہ نہ صرف اخلاقیات اور پشتون ثقافت کے منافی ہے بلکہ یہ آئین و قانون اور اظہار رائے کی بنیادی آزادی کے اصولوں کے خلاف بھی ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان