پسند کی شادی: ’جرگے نے قتل کا فتویٰ لگا کر بھتیجی جرمانے میں مانگ لی‘

سندھ کے ضلع خیرپورمیرس کے ایک جوڑے کا کہنا ہے ایک بااثر وڈیرے نے جرگہ بلا کر انہیں ’کارو کاری‘ قرار کر دیا اور آٹھ سالہ بھتیجی جرمانے میں دینے کا حکم دیا تو وہ خوف کے مارے گاؤں چھوڑنے پر مجبور ہوگئے۔

(تصویر: سوشل میڈیا)

شمالی سندھ کے ضلع خیرپور میرس سے تعلق رکھنے والے ایک جوڑے نے دعویٰ کیا ہے کہ پسند کی شادی کرنے پر ایک بااثر وڈیرے نے جرگہ بلا کر انہیں ’کارو، کاری‘ قرار دے کر قتل کرنے کا فتویٰ جاری کیا ہے۔  

متاثرہ خاتون تحصیل نارا کے گاؤں کھینواری کی رہائشی 19 سالہ فائزہ ہنگورو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’میں نے 10 جون 2019 کو ہماری برداری سے تعلق رکھنے والے ہمارے گاؤں کے رہائشی انور علی ہنگورو سے عدالت میں پسند کی شادی کی۔ اب ہماری ایک بیٹی پیدا ہوئی ہے۔‘

’کچھ عرصہ قبل ہمارے گاؤں کے ایک بااثر وڈیرے نے جرگہ بلا کر مجھے اور میرے شوہر کو ’کارو، کاری‘ قرار دے کر قتل کرنے کا فتویٰ جاری کیا ہے، جس کے بعد ہم چھوٹی سی بچی کے ساتھ خوف کے مارے دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔‘

فائزہ ہنگورو کے مطابق قتل کے ڈر سے انہوں نے اپنا گاؤں چھوڑ دیا ہے۔ 

ان کے مطابق: ’جرگے میں فیصلہ سنایا گیا کہ مجھ سے پسند کی شادی کرنے کے بدلے میں میرا شوہر علی انور ہنگورو اپنی آٹھ سالہ بھتیجی عائشہ کو جرمانے کے طور پر دیں۔ اس کے علاوہ جرگے میں ہمیں قتل کرنے کے لیے لوگ مقرر کیے گئے ہیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب ہم قتل ہوجائیں تو ہماری تدفین آبائی قبرستان میں نہیں ہونے دی جائے گی۔‘

انہوں نے مزید بتایا: ’جرگے نے ہمیں راج سے نکال کر ہمیں برداری سطح پر تنہا کر دیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل میری ساس کا انتقال ہو گیا، تو بااثر وڈیرے کے مسلح افراد نے ہمارے مشترکہ آبائی قبرستان پر قبضہ کرکے میری ساس کی لاش کو دفنانے نہیں دیا، مجبوراً ہم نے ان کی تدفین ہمارے گھر کے پاس کی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

فائزہ ہنگورو کے شوہر انور علی ہنگورو نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا: ’جرگے کے بعد ہم نے قتل کیے جانے کے خوف سے گاؤں بھی چھوڑ دیا۔ اب دربدری کی زندگی گزار رہے ہیں۔ میں گریجویٹ ہوں مگر خوف کے باعث نوکری نہیں کرسکتا۔ پولیس کوئی مدد نہیں کر رہی اور کیس بھی دائر نہیں کر رہی۔‘

فائزہ ہنگورو نے مطالبہ کیا کہ اس واقعے کی عدالتی انکوائری کرائی جائے اور جرگہ بلانے والوں کے خلاف کیس دائر کرکے سزا دی جائے جبکہ ان کے خاندان کو تحفظ دیا جائے۔

اس حوالے سے تصدیق کرنے کے لیے اور مزید معلومات کے لیے انڈپینڈنٹ اردو نے سینیئر سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس ایس پی) خیرپور امیر سعود مگسی سے رابطہ کیا جنہوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا۔ 

تاہم کھیںواری تھانے کے ایس ایچ او اقبال نون نے بتایا: ’ابتدائی تفتیش میں ہمیں نہیں لگتا کہ انہیں کوئی خطرہ ہے۔ ہمیں پتہ چلا ہے کہ دونوں خاندانوں کا سانگھڑ میں ایک روحانی جماعت کے رہنما کے پاس صلح نامہ بھی ہوا ہے۔ ہم نے میاں بیوی کی حفاظت کے لیے تین پولیس کانسٹبل مقرر کیے ہیں۔ انکوائری کررہے ہیں، جلد ہی حقائق سامنے آئیں گے۔‘

سندھ کے سودیشی یا سماٹ سندھیوں کی اکثریت جنوبی سندھ یا ذیلی سندھ کے اضلاع میں مقیم ہے۔ جبکہ شمالی سندھ میں بلوچ نژاد سندھیوں کی اکثریت آباد ہے، جہاں ’کارو، کاری‘ جیسی قبائلی رسمیں اور سرداری نظام رائج ہے۔

شمالی سندھ میں مقیم سماٹ ذاتوں کا بھی قبائلی رسمیں ادا کرنے کا مشاہدہ کیا گیا۔ ہنگورو سماٹ سندھیوں کی ایک ذات ہے۔ 

سندھ میں غیرت کے نام پر ’کارو، کاری‘ کا الزام لگا کر قتل کرنے کے متعدد واقعات رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ چند روز قبل سندھ کے ضلع سانگھڑ کی تحصیل کھپرو کے تھانہ کاہی کی حدود میں خاتون گلشنہ شر کو ’غیرت کے نام‘ پر قتل کر دیا گیا تھا۔

سندھ پولیس کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر جاری ایک حالیہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا کہ سندھ میں 2014 سے جنوری 2020 تک چھ سالوں کے دوران 901 افراد کو قتل کیا گیا، جن میں قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 619 ہے۔ ان میں اکثر واقعات شمالی سندھ میں رپورٹ ہوئے۔ 

سندھ میں سرکاری طور جرگے کو غیر قانونی قرار دیے جانے کے باجود اکثر جرگے بھی رپورٹ ہوتے رہتے ہیں۔ 

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان