چترال میں دہرا قتل:’غیرت‘ کے نام پر قتل یا خودکشی؟

مقامی افراد کے مطابق 19 جون کو پیش آنے والے واقعے میں لڑکی اور لڑکے کی لاش بڑی ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں اور ان کے درمیان لگ بھگ ڈیڑھ فٹ کا فاصلہ تھا۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) چترال کے مطابق یہ ’غیرت کے نام پر قتل ہے، لیکن اس کو خودکشی کا رنگ دیا جا رہا ہے (فائل تصویر: سوشل میڈیا)

چترال کے علاقے لوٹ اویر (ژوڑیاں سور) میں ایک نوجوان لڑکے اور لڑکی کی لاشیں اس سال 19 جون کو کھلے علاقے میں ملیں، تاہم واقعے کے تقریباً تین ہفتوں بعد بھی یہ واضح نہیں ہوسکا کہ آیا یہ ’غیرت‘ کے نام پر قتل تھا یا خودکشی؟

پولیس نے واقعے کے فوری بعد اپنی مدعیت میں نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرکے تحقیقات تو شروع کردی تھیں لیکن تاحال کوئی پیش رفت سامنے نہیں آئی ہے۔

پولیس کے مطابق لڑکے کی عمر 23 اور لڑکی کی عمر 18 سال تھی۔ دونوں لاشوں کو پوسٹ مارٹم کرنے کے بعد ورثا کے حوالے کیا گیا، جنہوں نے ان کی تدفین بھی کر دی۔

پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق لڑکے کو دو اور لڑکی کو ایک گولی لگی تھی جبکہ لاشوں کے پاس سے ایک روسی ساختہ بندوق اور ایک پستول بھی ملا۔

پولیس نے لڑکے کے موبائل سمیت برآمد شدہ ہتھیاروں کو قبضے میں لے کر تفتیش کا آغاز کیا۔

پولیس کا کہنا ہے کہ اس کیس کو دبانے کے لیے اس علاقے کے معروف سیاسی رہنما کی جانب سے ان پر مبینہ طور پر دباؤ ڈالا جا رہا ہے جبکہ بعض حلقوں کی جانب سے یہ تاثر پیدا کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے کہ یہ خودکشی تھی۔

ڈسٹرکٹ پولیس افسر (ڈی پی او) چترال ذوالفقار تنولی کے مطابق یہ ’غیرت کے نام پر قتل ہے، لیکن اس کو خودکشی کا رنگ دیا جا رہا ہے۔‘

گاؤں کی مقامی آبادی کے خیال میں یہ غیرت کے نام پر قتل ہے اور دونوں کو قتل کرکے جنگل میں پھینکا گیا ہے کیونکہ جہاں سے لاشیں ملی ہیں وہاں نہ خون کے نشانات تھے اور نہ ہی کوئی اور نشان جس سے یہ بات ثابت ہو سکے کہ انہوں نے وہاں خودکشی کی ہے۔

مقامی افراد کے مطابق لڑکی اور لڑکے کی لاش بڑی ترتیب سے رکھی ہوئی تھیں اور ان کے درمیان لگ بھگ ڈیڑھ فٹ کا فاصلہ تھا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایک مقامی شخص نے بتایا: 'اویر ایک چھوٹا سا گاؤں ہے اور یہاں سب کو ایک دوسرے کے بارے میں خبر ہوتی ہے۔ ہم نے کبھی ان دونوں کے بارے میں کوئی غلط بات نہیں سنی۔ آٹھ بجے کے قریب لڑکی کے گھر والے لڑکی کو ڈھونڈ رہے تھے۔ لگ بھگ اسی ٹائم لڑکے کو گاؤں میں گھومتے ہوئے دیکھا گیا تھا۔ نو یا دس بجے کے قریب فائرنگ کی آوازیں سنی گئی۔ پھر پتہ چلا دونوں کی لاشیں جنگل میں پڑی ہوئی ہیں۔'

واقعے کے حوالے سے مقتولین کے اہل خانہ نے بات کرنے سے انکار کردیا۔

دوسری جانب انٹرنیشنل ہیومن رائٹس آبزرور چترال کے ڈائریکٹر سید مختار علی شاہ ایڈوکیٹ اس کیس کے حوالے سے متعلقہ اداروں سے مسلسل رابطے میں ہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ پولیس اس کیس کے حوالے سے اپنی کوشش کر رہی ہے تاہم گاؤں والے اس حوالے سے تعاون کرنے کو تیار نہیں۔

انہوں نے بتایا کہ اس سے پہلے بھی اسی علاقے میں ایک خاتون کا سر کاٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا اور ملزماں شواہد کی عدم دستیابی کی بنیاد پر بری ہو گئے تھے۔

اس مسئلے پر این جی اوز کے کردار کے حوالے سے سید ہریر شاہ سے بات کی گئی، جو خود بھی ایک این جی او چلاتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ 'چترال میں این جی اوز برائے نام ہیں اور 2010 کے بعد سے ان کا کردار چترال میں انسانی حقوق کے حوالے سے نہ ہونے کے برابر ہے۔'

دوسری جانب معروف قانون دان عبدالولی ایڈووکیٹ کا کہنا تھا کہ 'ایسے بہت سے قتل کے کیسز ہوتے ہیں جن کو خود کشی کا رنگ دیا جاتا ہے جو بہت تشویش ناک بات ہے۔ اگر ٹھوس شواہد ہوں جیسا کہ آلہ قتل برآمد ہو اور انگلیوں کے نشانات میچ کریں اور اس کے علاوہ چشم دید گواہ ہوں اور وہ عدالت میں آ کر گواہی دیں تو ہی مجرم کو سزا دی جا سکتی ہے۔'

تاہم ان کا کہنا تھا کہ 'اس کیس میں ہلاک شدگان کے جسم پر زخموں کے نشانات ہیں اور یہ قتل کا کیس لگتا ہے۔'

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان